معاہدے میں حکومت نے تحریک لبیک کو چکر دے دیا ہے


تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت کی فتح ہوئی ہے اور تحریک لبیک نے ہتھیار ڈالے ہیں۔ شاید اس میں مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد کے پریشان کن ملکی حالات کا عنصر بھی شامل ہو۔ بہرحال پانچوں نکات دلچسپ ہیں۔ تحریک لبیک نے ان سے کچھ خاص حاصل نہیں کیا گیا ہے۔ عبارت میں اتنے نقائص ہیں کہ حکومت اس سے با آسانی جان چھڑا سکتی ہے۔ سب سے بڑا قانونی نقص تو یہی ہے کہ ”آسیہ بی بی“ کا نام ”عاصیہ مسیح“ لکھا گیا ہے، یعنی یہ عبارت قانونی طور پر ”آسیہ بی بی“ سے تعلق نہیں رکھتی۔ باقی نکات کو بھی دیکھتے ہیں۔

پہلا نکتہ: عاصیہ مسیح کے مقدمے میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی گئی ہے جو کہ مدعا علیہان کا قانونی حق و اختیار ہے۔ جس پر حکومت معترض نہ ہو گی۔
یہ مدعی کا حق ہوتا ہے۔ اس میں حکومت کے معترض ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ تو مدعی اور عدالت کا معاملہ ہے۔ مدعی قاری محمد سلام یہ اپیل یکم نومبر کو دائر بھی کر بھی چکا ہے۔

دوسرا نکتہ: عاصیہ مسیح کانام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
یہ واحد پوائنٹ ہے جو کسی حد تک کارآمد ہے۔ لیکن اس میں کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔ حکومت کی صوابدید پر ہے کہ دو گھنٹے کو ”فوری طور پر“ کی مدت قرار دیتی ہے یا دو مہینے کو۔ اس میں بھی ”عاصیہ مسیح“ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا، تو کیا ”آسیہ بی بی“ نام مختلف ہونے کی وجہ سے باہر نہیں چلی جائے گی؟ حکومت باہر بھیجنے کی گنجائش نکالنی چاہے تو باآسانی نکال سکتی ہے۔

تیسرا نکتہ: عاصیہ مسیح کی بریت کے خلاف تحریک میں اگر کوئی شہادتیں ہوئی ہیں ان کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
یہ بھی روٹین کا حصہ ہے۔ معاہدے میں ہوتا یا نہ ہوتا، کسی انسان کی غیر فطری موت پر قانونی کارروائی ہوتی ہی ہے۔ روایت تو یہی ہے کہ حکومتی فورس ذمہ دار ہو تو بس کاغذی کارروائی ہی ہوتی ہے۔

چوتھا نکتہ: عاصیہ کی بریت کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے گا۔
اس سے آسیہ بی بی کے کیس کا کیا تعلق ہے؟ دوسری بات کہ اگر مولانا خادم رضوی کے مطابق ”کسی قسم کی توڑ پھوڑ یا بد امنی پھیلانے والے سے ہمارا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں“ تو کیا وہ بلوائی بھی رہا کیے جائیں گے؟ یا صرف پرامن مظاہرین کو ہی رہا کیا جائے گا؟ یا پھر اس مدت کے دوران پاکستان میں کسی بھی جرم میں گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا؟ قانونی طور پر کمزور پوائنٹ ہے۔ یہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے کہ ”عاصیہ کی بریت کے خلاف لبیک کی تحریک میں 30 اکتوبر اور اس کے بعد گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا“ لکھنے کا ارادہ تھا۔ بہرحال یہ بھی جلد بازی کا مظہر نکتہ ہے اور حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے کہ اس پر کتنا عمل کرتی ہے۔ ورنہ تحریک لبیک والے قانونی موشگافیوں میں پھنس جائیں گے۔

اس میں بھی اہم پوائنٹ یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط وفاقی وزیر اور پنجاب کے صوبائی وزیر قانون نے کیے ہیں۔ یہ دونوں حضرات سندھ حکومت کو کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے گرفتار شدہ افراد رہا کرے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت ان معاملات پر اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے اور وہ اس معاہدے کی فریق نہیں ہے۔

پانچواں نکتہ: اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔
غالباً یہ بغاوت کی کال اور وزیراعظم عمران خان کے متعلق کلمات پر سوری کہا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس پانچ نکاتی معاہدے کے نتیجے میں حکومت کو کیا حاصل ہوا ہے اور تحریک لبیک نے کیا پایا ہے؟ بظاہر تو حکومت غیر معمولی دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جسے تحریک لبیک والوں نے ٹھیک سے پڑھا بھی نہیں ہے۔ مجھے جیسے ایک عام آدمی کو اس معاہدے میں اتنے قانونی نقائص اور لوپ ہولز دکھائی دے رہے ہیں تو حکومت کے تجربہ کار وکلا اس میں کیا کیا نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ تحریک لبیک اس معاہدے پر قانونی طور پر عمل درآمد نہیں کروا سکتی ہے۔ صرف ڈنڈے کے زور پر ہی عمل ممکن ہے۔ قانونی طور پر تحریک لبیک نے کچھ نہیں پایا ہے اور حکومت اسے چکر دینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar