آرمی پبلک سکول سانحہ: ’آج بھی میں اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہوں‘


بچے

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کے اداس چہروں اور ویران آنکھوں میں موت کے وہ مناظر آج بھی موجود ہیں جو ان کے بچوں نے سکول میں حملے کے وقت دیکھے تھے۔

عدالت کے باہر موجود والدین ان چہروں کو منظر عام پر لانے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں جنھوں نے ان کے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا تھا، اس حملے کا منصوبہ بنایا اور یا جن افراد کی غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن میں جمعرات کو تین افراد نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق یہ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر قائم کیا گیا ہے جس کی قیادت جسٹس محمد ابراہیم خان کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سانحہ آرمی پبلک سکول پر عدالتی کمیشن بنانے کا حکم

تعلیمی اداروں میں سکیورٹی پالیسی ناکام

’وہ منظر لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘

اے پی ایس کے بچوں کا خون مجھ پر قرض ہے: قمر جاوید باجوہ

گل شہزاد خٹک ایک ریٹائرڈ استاد ہیں۔ ان کی جوان بیٹی سعدیہ گل آرمی پبلک سکول میں انگریزی کی استانی تھیں جو حملہ آوروں کا نشانہ بنی تھیں۔

گل شہزاد خٹک نے بی بی سی کو بتایا ’اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی میں اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کی آواز آئے گی جی ابو جی لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ‘ہم اس واقعے کے چشم دید گواہ نہیں ہیں بلکہ سکول سٹاف اور ملٹری سٹاف اس کے عینی شاہد ہیں، انھیں بھی طلب کیا جائے ان سے انکوائری کی جائے کہ کیا ہوا تھا۔ والدین کو تو لاشیں دی گئی تھیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ انھیں دہشت گروں کی شکل نہیں دکھائی گئی تاکہ ان کی تسلی ہوتی اب جانے وہ کون تھے کیا خلافئی مخلوق تھے کہ سب غائب ہو گئے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیشن کا قیام والدین کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اب انھیں امید ہے کہ ذمہ داروں کو تعین ہو سکے گا اور وہ لوگ جن کی غفلت سے اتنے بچوں کی جانیں چلی گئی ہیں ان کی نشاندہی ہو سکے گی۔

بچے

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کو چار سال ہونے کو ہیں لیکن اس حملے میں ہلاک اور زحمی ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی واقعے کو یاد کرکے رونے لگتے ہیں۔

اس کمیشن میں بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے 90 افراد نے اپنے نام درج کرائے جن میں ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں، سکول کے سٹاف اراکین کے والدین اور رشتہ دار شامل ہیں۔ بچوں کی ماؤں اور کچھ ان طالب علموں نے بھی نام درج کرائے ہیں جو حملے کے وقت سکول میں موجود تھے۔

کمیشن میں بیانات تین دن سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور روزانہ چار سے چھ افراد کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔

عدالت کے باہر ایک بزرگ تحسین اللہ درانی بھی موجود تھے۔ ان کے دو بچے سکول حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ انھوں نے بات کرنے سے تو انکار کر دیا لیکن اتنا بتایا کہ ان کے بس دو ہی بچے تھے اور دونوں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔

گلش شہزاد خٹک نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں میں 40 تو ایسے ہیں جن کی تمام اولاد ختم ہو گئی ہیں یعنی ان کی تو آئندہ نسل ہی اب باقی نہیں رہی۔

بچے

آرمی پبلک سکول کے طالب علم رفیق رضا بنگش کے والد عابد رضا بنگش نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جوڈیشل کمیشن سے بڑی امید ہے کیونکہ ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین چاہتے ہیں کہ اس واقعے کے ذمہ دار افراد کا تعین ہو سکے۔

انھوں نے کہا کہ وہ یہ سب دوسرے بچوں کے لیے کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بچے تو اب واپس نہیں آ سکتے لیکن آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں اس کے لیے تو وہ کوششیں کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ جو لوگ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں انھوں سامنے لا کر سزا دی جائے۔

پشاور ہائی کورٹ میں جمعے کو چھ بچوں کے والدین موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام لوگوں کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی کی شرکت قدرے کم ہے۔ ان والدین کا کہنا تھا کہ وہ تمام لوگ جن کے پاس اس واقعے کے بارے میں معلومات ہیں وہ آگے آئیں اور اپنے بیان ریکارڈ کرائیں۔

سکول حملے کے بعد فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور واقعے کے ایک سال بعد یعنی دسمبر 2015 میں چار افراد کو سزائے موت دی تھی جن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ آرمی پبلک سکول پر حملے میں ملوث تھے۔ سکول میں ہلاک ہونے والے والدین کا کہنا تھا کہ انھیں اس وقت اطمینان ہو گا جب ان کے سامنے حملہ آورووں کو لایا جائے گا۔

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر سال 2014 کو چھ مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا جس میں 132 بچوں سمیت 147 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp