اپنے لیے، قوم کے لیے


اس کی پونی ٹیل دیکھ کر میں اسے ایک چھوٹی سی بچی سمجھتا تھا‘ جسے اماں ابا نے جمناسٹک سکھا دی ہو۔ ایک دن ایویں کسی کام سے انٹرنیٹ پہ گیا تو اس کی پوری ویب سائٹ نظر آ گئی۔ آرات حسینی اس کا نام ہے اور وہ پانچ سال کی عمر کا ایک بچہ ہے۔ اٌتم پیارا بچہ، ایسا بچہ جسے دیکھ کر خواہ مخواہ پیار آتا ہے۔ آرات کے ابا ایک باڈی بلڈر ہیں۔ جب آرات تین ماہ کا تھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ اس بچے کا جسم ایک تو اچھا خاصا لچکدار ہے اور دوسرا اس کے ہاتھوں کی گرپ ٹھیک ٹھاک مضبوط ہے۔ وہ اسے جہاں کہیں لٹکانے کی کوشش کرتے آرات بڑے سکون سے دیر تک لٹکتا رہتا۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کی ٹریننگ وہ اسی عمر سے کریں گے اور اسے ایک کامیاب جمناسٹ بنائیں گے۔

پہلے تو انہوں نے کھیل کود میں نارمل ٹریننگ شروع کی پھر جب انہیں لگا کہ آرات ان کی توقع سے زیادہ دلچسپی لے رہا ہے تو انہوں نے اس کی ٹریننگ کا دورانیہ بڑھانا شروع کر دیا۔ ایک وقت ایسا آیا جب آرات کے والد نوکری شوکری چھوڑ کے بس اپنے بیٹے کے لئے کل وقتی ٹرینر اور اس کی ویب سائٹ کے منیجر بن چکے تھے۔

اس وقت آرات پانچ سال کا ہے۔ وہ بیٹ میں کی طرح دیواروں پہ بغیر کہیں ہاتھ پیر پھنسائے چڑھ جاتا ہے۔ آٹھ دس سیڑھیوں کے اوپر سے چھلانگ لگا لیتا ہے۔ زمین سے ایک میٹر اونچے سٹول پہ چھلانگ مار کے چڑھ جاتا ہے۔ انتہائی سخت قسم کی ورزشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ بعض اوقات ورزش کرتے کرتے رونے لگتا ہے لیکن پھر بھی کرتا رہتا ہے۔ ان تھک ورزش کرنا اور فٹ بال کھیلنا اس کے دو شوق ہیں۔ ورزش کر کر کے اس کا پیٹ اپنے ابا کی طرح باقاعدہ مسلز والا بن چکا ہے اور فٹبال میں اپنی عمر کے بچوں سے وہ بہت آگے ہے۔

اوشا سمن بائیو کیمسٹری کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے سولہ برس کی عمر سے پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والی ایک ٹیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ دو سال بعد اسی سال کی ہو جائیں گی۔ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک بیس سال کے نوجوان کو چیلنج کیا۔ اسے کہا: بیٹا آؤ میرے مقابلے میں پُش اَپس لگاؤ۔ تو وہ بیس سالہ جوان ہار گیا اور اوشا دادی جیت گئیں۔ اس کے رک جانے کے بعد بھی کافی دیر تک ان کے پش اپس جاری رہے۔ پھر انہوں نے سو کلومیٹر کی ایک واک میں حصہ لیا اور اکتالیس گھنٹے میں اسے بھی پورا کر لیا۔

سو کلومیٹر؟ آپ بہت تیز بھی چلیں تو ایک گھنٹے میں آٹھ کلومیٹر سے زیادہ مشکل ہے اور ایک گھنٹہ بھی کون کون چل سکتا ہے؟ دو تین سال پہلے اوشا نے ماؤنٹ ایورسٹ اور کیلمین جارو کے بیس کیمپس تک بھی سر کیے تھے۔ احمد آباد سے بمبئی کا سفر ساڑھے پانچ سو کلومیٹر کا ہے۔ اوشا نے اپنے بیٹے کے ساتھ دو ہفتوں کی اس میراتھن واک میں بھی حصہ لیا اور اس کی شرط یہ تھی کہ ننگے پاؤں دوڑنا ہے۔ اوشا ساڑھی باندھے ننگے پاؤں دوڑتی رہیں۔ دو کم اسی برس کی عمر میں اوشا یہ سب کچھ بڑے سکون سے کرتی ہیں کیونکہ اوشا کو بچپن سے ورزش کرنے اور بے تحاشا پیدل چلنے کی عادت تھی۔

اوشا کا بیٹا ملند سمن ہے۔ وہ بھارت کا ٹاپ ماڈل اور پوری فلم انڈسٹری کا فٹ ترین آدمی ہے۔ اس وقت ملند باون سال کا ہے اور تیس دن میں پندرہ سو کلومیٹر ننگے پاؤں بھاگنے کا ریکارڈ بنا چکا ہے۔ وہ خواتین میں بریسٹ کینسر کی آگاہی کے لیے پنک آتھون نامی ایک میراتھن ریس بھی ملک بھر میں جگہ جگہ کرواتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے ادارے سپانسر بھی کرتے ہیں لیکن ملند سومن، اس کی پچیس سالہ بیوی اور اس کی اٹھتر سالہ ماں، تینوں کو بھاگتے دیکھ کر انڈیا بھر کی عورتیں ورزشی کلچر میں دلچسپی لیتی نظر آ رہی ہیں۔ جیسے آرات کا باپ اسے آج کل دن رات ورزش کرواتا ہے ویسے اوشا کا بیٹا ملند سمن انہیں ساری عمر سے فزیکل فٹنس کے لیے واک، رننگ اور مختلف ورزشیں کرتے دیکھ رہا ہے۔ نتیجہ؟ باون سال کی عمر میں جوان، انھے واہ‘ بھاگتا ہے اور کئی دنوں تک بھاگ سکتا ہے!

یہ دو تین قصے تو ہو گئے ایران اور انڈیا کے جہاں لباس اور کلچر وغیرہ کچھ نہ کچھ ہمارے جیسے ہیں۔ یورپ امریکہ میں سین تھوڑا الگ ہے۔ ادھر چونکہ لباس مختصر ہوتا ہے یا فٹنگ والا ہوتا ہے تو مرد ہو یا عورت، فٹ رہنا اور ایک شیپ میں دکھائی دینا ان کی مجبوری زیادہ بن جاتی ہے۔ یار آپ صرف پینٹ شرٹ کو دیکھ لیں، دو چار دن ٹکا کے کھانے کھائیں پانچویں دن بیلٹ ایک سوراخ آگے جانے پہ اصرار کرے گی، پانچویں ہفتے پینٹ سلام تک نہیں کرے گی اور اگر تب بھی باز نہ آئے تو پانچویں ماہ شرٹ نے بھی آپ کو نہیں پہچاننا۔ اپنا کیا ہوتا ہے؟ بیس سال پہلے کی شلوار آج بھی فٹ ہے، کیوں؟ پیٹ جتنا بھی بڑھ جائے شلوار میں گھیر کی وسعتیں ناقابل بیان ہوتی ہیں۔ کلیوں والے کرتے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ تو کل ملا کے ہمارا لباس بھی ہمارے وسعتِ شکمی کو سپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں چھوٹی عمر سے وزرش وغیرہ کو بالکل سپورٹ نہیں کیا جاتا۔ کھیل کود، دوڑ بھاگ بھی زیادہ تر پندرہ بیس سال پہلے تک کے بچے کیا کرتے تھے، اب اس کا رجحان کافی کم ہو گیا ہے۔ ہمارے یہاں پتہ ہے ورزش کب شروع ہوتی ہے؟ جب کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ سب سے ہلکا کیس یہ ہو گا کہ ایک آدمی کا پیٹ اتنا زیادہ باہر نکل آئے کہ اسے پیروں کے ناخن کاٹنے میں تکلیف ہو، تو وہ سوچے، ہمت کرے اور واک شروع کر دے۔ اس کے بعد معدے کے مریضوں کا نمبر آئے گا۔ جسے کھانا ٹھیک سے ہضم نہیں ہوتا‘ اسے ڈاکٹر کسی نہ کسی ورزش پہ لگاتے ہیں۔ پھر دل کے مریضوں کی باری آتی ہے۔ ہماری اسی فیصد آبادی کو دل کا مرض ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ واک کسے کہتے ہیں اور وہ کتنی کرنی ہوتی ہے۔ پہلے ہارٹ اٹیک کے بعد عموماً لوگ کارڈیو اور دوسری ورزشوں میں فرق سمجھنے لگتے ہیں۔

میرے ساتھ دو سین ہوئے۔ ایک تو ہاروکی موراکامی میرا اخیر قسم کا فیورٹ رائٹر ہے۔ جاپانی آدمی ہے۔ چودہ پندرہ ناول لکھ چکا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ناولوں میں ہیرو جو ہوتا ہے وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی ورزش ضرور کرتا ہے۔ مطلب جہاں عام ناولوں میں ہیرو سو کے اٹھے گا اور شیو کرنا شروع کر دے گا وہاں موراکامی کا ہیرو پہلے دس منٹ سٹریچنگ کرے گا، کچھ اور اُٹھک بیٹھک کرے گا، اس کے بعد دنیا کی طرف متوجہ ہو گا۔

تو موراکامی کے ڈائی ہارڈ فین ہونے کی وجہ سے تھوڑی بہت ورزش کا دل کرنے لگ گیا تھا۔ دوسرا مسئلہ بلڈ پریشر کا تھا۔ اس کا حل بھی ڈاکٹر نے یہی بتایا کہ تھوڑی دیر واک کرو اور یہ کہ روزانہ کرو۔ تو بس پھر صحت کی خیرات لگی بٹنے۔ اب بھائی واکیں کرتا ہے، بیماری سے ڈر کے دوڑ لگاتا ہے اور روزانہ بلاناغہ خود پہ لعنت بھی بھیجتا ہے کہ جا حسنین جمالیا زندگی ایسی بھی کیا پیاری کہ اتنے پسینے بہا رہا ہے؟ پھر خود کو جواب دیتا ہے کہ بابا، پیاری موت بھی برابر ہے پر جتنی لکھی ہے وہ بس کھڑے پیریں گزر جائے، آسرا ماسرا نہیں چاہیے کسی کا، زندگی اتنی جو صحت کے ساتھ ہو!

تو یہ جو آرات حسینی کا، اوشا اور ملند سمن کا اور موراکامی کا ذکر کیا وہ اس لیے کہ اپنی اس ماڈل دنیا میں یہ سارے کریکٹر بچپن سے برابر ورزشی ہیں۔ انہیں دیکھ کے ہمیشہ خیال آتا ہے کہ ہمارے بچے شروع سے ہی پراپر ورزش کیوں نہیں کرتے (ٹو بی مور پریسائز، میں نے آخر شروع سے کیوں نہیں کی؟ ) کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم بچوں کے سکولوں میں آدھا گھنٹہ کھیل کود کی بجائے باقاعدہ ورزش کا رکھیں؟ انہیں علم ہو کہ ورزش بیمار ہوئے بغیر بھی کی جا سکتی ہے اور اس صورت میں اس کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے؟

مطلب یار میری طرح چالیس کے پاس آ کر جاگنگ، واک یا رننگ سٹارٹ کی تو مٹی تے سواہ فائدہ ہے؟ کیا ہم بچوں کو یہ نہیں بتا سکتے کہ ہریسے، نہاری، بروسٹ، پائے، چکن پیس، آئس کریم یا کسی بھی فیٹ برگر میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں؟ انہیں کھانا کس قدر آسان ہے اور گلانا کس قدر مشکل؟ کیا ہم انہیں بار بار یاد نہیں دلا سکتے کہ بیٹا جسم جب پھیل رہا ہو اسے روکنے کا بہترین وقت وہی ہے؟ چلو یوگا ہندوانہ کام ہو گا، کیا دنیا کی باقی ورزشیں بھی کافر ہیں؟ کیا کسی طرح ہم انہیں سبزیاں زیادہ کھانے کی عادت نہیں ڈال سکتے؟ تو بس یہ لانجھا تھا آج کا، مکدی مکائیں، ورزش کریں، دوڑیں، بھاگیں، اپنے لیے، قوم کے لیے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain