پچاس گھنٹے بعد معاہدہ ہوگیا، قوم کو مبارک ہو


دھڑنے والوں نے پچاس گھنٹے تک دھڑنا دیا، جلاؤ گھراؤ کیا، موٹرسائیکلیں جلائیں، ریڑھیاں، دکانیں لوٹیں، املاک پر حملےکیے ، گاڑیاں نزرآتش کی، لوگوں پر تشدد کیا اور آخر میں تبدیلی والی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرکے پورے پاکستان میں امن کی فضا بحال کردی۔ اسے کہتے ہیں ریاست، اسے کہتے ہیں حکومت، اسے کہتے ہیں رٹ آف دی اسٹیٹ۔ اب جو بھی جتھا، گروہ یا گروپ اس طرح سے ریاست سے ٹکرائے گا تو ریاست آرام سے جھک جائے گی اور امن بحال ہوجائے گا۔

جن لوگوں کی موٹر سائیکلیں اور رکشے جلائے گئے ہیں، گاڑیاں نزرآتش کی گئی ہیں، املاک کو تباہ و برباد کیا گیا ہے، ان کے لئے بھی ایک خوشخبری معاہدے میں موجود ہے اور وہ خوشخبری یہ ہے کہ جناب خادم حسین نے ایسے تمام افراد سے معذرت کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ دل آزاری پر افسوس ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کا جو عوام کا نقصان ہوا ہے اس کا ہرجانہ کون ادا کرے گا، ا سکے لئے عوام عمران خان صاحب کا انتظار کریں کیونکہ وہ چین سے لاکھوں ڈالر ساتھ لا رہے ہیں، ان میں سے کچھ ڈالرز وہ عوام میں بھی تقسیم کردیں گے۔

اب عوام سے صرف ایک اپیل ہے کہ پاکستان میں کسی شہری کو کوئی بھی مسئلہ ہوتو وہ خادم حسین رضوی صاحب سے رابطہ کریں کیونکہ اصل میں وہی حقیقی ریاست ہیں۔ شرطیہ کام ہوگا۔ کچھ دن اسکول، کالجز اور یونیوسٹیاں بند رہیں تو کیا ہوا، تعلیم کا ہی حرج ہوا ہے۔ بچوں نے اسی بہانے چھٹیاں تو انجوائے کی۔ گاڑیاں، رکشے، موٹر سائیکلیں جل گئی، املاک کو آگ لگا دی گئی تو کیا ہوا، صرف تین دن کے لئے دھڑنے والوں نے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر اور شام جیسا بنا کر دیکھایا کہ عوام سمجھیں کہ دکھ، تکلیف اور پریشانی کس بلا کا نام ہے۔

خادم حسین رضوی صاحب دنیا کے وہ واحد مولانا ہیں جو اس ریاست کو کسی بھی وقت غیر محفوظ سے محفوظ اور محفوظ سے غیر محفوظ دکھا سکتے ہیں، سنا ہے ایسا جادو دنیا کے کسی اور انسان کے پاس نہیں ہے۔ دھڑنے والے جب چاہتے ہیں پوری عوام کو مظلوم بنا دیتے ہیں، اس مرتبہ تو دھڑنے والوں نے طاقتور اداروں کے طاقتور افراد کو مظلوم بنادیا۔ پہلے کہا گیا ایکشن ہوگا۔ پھر کہا گیا نہیں نہیں مذاکرات ہوں گے اور آخر میں سرنڈر کردیا گیا۔ اسے کہتے ہیں ریاست کی حقیقی طاقت۔

ان تین دنوں میں پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا بھی بجھا بجھا سا رہا۔ ایسے لگا جیسے میڈیا پر مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے۔ بیچارے میڈیا نے عوام کو بنیادی معلومات تک نہ دیں۔ کم از کم عوام کا یہ تو حق تھا کہ انہیں بتایا جاتا کہ فلاں علاقے میں جانے سے گریز کریں، ان کی گاڑیاں، رکشے وغیرہ جلائے جاسکتے ہیں۔ موبائل فون بھی ان تین دنوں میں خاموش رہے اور انٹرنیٹ وغیرہ بھی بہت حد تک بند رہا، عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ کٹا رہا جس کا فائدہ دھڑنے والوں کو یہ ہوا کہ وہ مرضی سے جو من میں آیا کرتے رہے۔

البتہ اب قوم کو مبارک ہو کہ سڑکیں کھل گئی ہیں، موبائل چل پڑے ہیں، انٹرنیٹ دوڑ رہا ہے، گاڑیاں جلنا بند ہو گئی ہیں۔ کیونکہ مذاق رات کامیاب ہوگئے ہیں۔ معاہدے پر پیر افضل قادری صاحب کے بھی دستخط ہیں، جی ہاں وہی پیر صاحب جو چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف کے بارے میں کچھ نہ گوار باتیں کرتے رہیں ہیں۔ انہوں نے بھی فرمایا ہے کہ جس جس کی بھی دل آزاری ہوئی ہے وہ معذرت خواہ ہیں۔

جو انسان پاکستان کے طاقتور اداروں کے طاقتور افراد کے بارے میں فتوے جاری کرے اور بچ جائے اور معاہدہ بھی کرلے، حقیقت میں طاقتور تو وہ ہوا، ریاست کاہے کی طاقتور؟ ایک دو ہزار سترہ کا نومبر تھا جب فیض آباد میں تماشا سجایا گیا اور پھر سنا ہے ایک ایک ہزار دے کر ان کو گھر بھیج دیا گیا۔ دو ہزار اٹھارہ والے نومبر میں ابھی تک ایسی اطلاعات نہیں ہیں کہ اس میلے کے افراد کو کسی قسم کی رقم دی گئی ہے۔ صرف اور صرف ان سے امن و امان قائم کرنے اور رٹ آف دی اسٹیٹ کے لئے معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا حقیقت میں کروڑوں عوام کو فائدہ نصیب ہوا ہے۔ سالے ایک معاہدے سے اگر کروڑوں لوگوں کو ریلیف مل گیا۔ گاڑیاں چل پڑیں، شاہراہیں کھل گئی، تعلیمی ادارے کھل گئے۔ تو اسے ریاست پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

پوری پاکستانی قوم کو خادم حسین رضوی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ان کی وجہ سے آج تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔ دکانیں اور جائیدادیں محفوظ ہیں تو اس کی وجہ دھڑنے والے مثالی مسلمان ہیں۔ دھڑنے والوں نے ان تین دنوں میں پاکستان کی ایک خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ عالمی دنیا میں ہمارا امیج بلند ہوا، عالمی دنیا کو ان تین دنوں میں سمجھ آئی ہے کہ ہم عظیم قوم ہیں۔ اربوں کا نقصان ہوگیا تو یہ کوئی ایشو نہیں ہے؟

ہم دس سال پیچھے چلے گئے تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی تہذیب و کلچر کو شاندار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان تین دنوں کے دھڑنے سے عالمی دنیا سمجھ گئی ہے کہ پاکستان میں کسی قسم کی انتہا پسندی اور دہشت گردی نہیں ہورہی۔ عالمی دنیا کو سمجھ آگئی ہے کہ ہم دنیا کے پرامن لوگ ہیں۔ ایسے لوگ جن کے سامنے ریاست بھی سرنگوں کر لیتی ہے۔

ان تین دنوں میں جو کچھ ہوا اب دنیا بھر سے انویسٹرز بھاگ کر پاکستان میں آئیں گے اور اپنا پیسہ لگائیں گے کیونکہ ان کو یقین ہوچلا ہوگا کہ یہاں ان کا کاروبار محفوظ رہے گا۔ چین میں دبنگ خان یعنی عمران خان چینی انویسٹرز کو یہ کہہ رہے تھے کہ وہ پاکستان میں پیسہ لگائیں کیونکہ پاکستان امن کی آمجگاہ ہے جہاں ان کا کاروبار محفوظ رہے گا۔ پاکستان ان تین دنوں میں تنزلی نہیں بلکہ ترقی کی طرف گیا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز نے مل کر پاکستان کو کامیابی سے نوازا ہے۔ ایک کامیاب معاہدہ کیا گیا ہے جس سے پاکستان تمام بدنامیوں سے بچ گیا ہے۔ کامیاب معاہدے پر عمرانی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ کیا یہ قوم کے لئے خوشخبری نہیں کہ اب دھڑنے والے مزید نقصان نہیں کریں گے۔ کیا یہ عوام کے لئے بہت بڑا ریلیف نہیں؟

اب وہ ریویو پٹیشن میں چلے گئے ہیں، اس ریویو پٹیشن کو سرد خانے میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ فرض کریں ججز نے ان کی ریویو پٹیشن خارج کردی تو کم از کچھ عرصے کے لئے امن تو رہے گا۔ اسی دوران یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو ہزار انیس والا نومبرآجائے۔ ایک سال امن کے بعد کم از کم دھڑنے والوں کا یہ تو حق ہے کہ وہ دوبارہ آئیں، دھڑنا دیں، گالیاں جلائیں، لوٹ مار کریں، دنیا میں پاکستان کا امیج بلند کریں اور پھر مذاق رات کا ایک سلسلہ چلے، ریاست سر نگوں کرے اور معاہدہ ہو۔

لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست کی یہ روایت بن گئی ہے کہ وہ ہر سال نومبر میں ایک جتھے کے سامنے جھکے گی۔ ایک خوبصورت روایت ہے یا ایک خوبصورت فیسٹیول ہے جو نومبر میں منایا جاتا ہے۔ اس فیسٹیول پر خونی لبرلز کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ آخر کار دنیا بھر میں فیسٹیول منائے جاتے ہیں۔ کیا دوسرے ممالک میں ان فیسٹیولز پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

وہ تباہی کرے گے، انسانوں کو ماریں گے، جلاؤ گھراؤ کریں گے، سڑکوں پر بدمعاشیاں کریں۔ چھوٹے بچوں کے کیلے کے ٹھیلوں کو لوٹیں گے۔ کسی کو واجب القتل کہیں گے، یہ سب کچھ وہ نومبر میں کریں گے، اس کے لئے اگر ریاست نے اس فیسٹیول کی اجازت دے دی ہے تو خونی لبرلز کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ یہ ریاست کا لاڈ پیار ہے جو وہ کچھ گرہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ریاست سب کو تو توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دے سکتی، صرف لاڈلے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ ایک تھے بلاگرز جو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے، ریاست کو چیلنج کرتے تھے، حکومت اور اداروں کی غلطیاں سب کو بتاتے تھے، کیا ریاست نے ان کو سیدھا نہیں کیا؟ مشال خان کے ساتھ جو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ پاکستانی ریاست کے کچھ اثاثے ہیں، اب بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے اب ریاست ان گرہوں کا اثاثہ بن گئی ہے۔ عالمی دنیا کو اور خونی لبرلز کو اب تو خاموش ہوجانا چاہیے۔ ایسے معاہدے روز روز ہوتے رہنے چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف ملتا رہے۔ عوام سے آخر میں صرف یہی اپیل ہے کہ وہ ان تین دنوں کو یاد رکھیں، اس معاہدے کو یاد رکھیں کیونکہ ان کی زندگی میں اس طرح کے اور بہت سے دن آئیں گے اور اس طرح کے اور بہت سے معاہدے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).