عافیہ اور آسیہ


دو مختلف مذاہب دو متضاد نظریات و عقائد اور دو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی ایک ہی جمہوری ملک کی دو آزاد شہری عافیہ صدیقی اور آسیہ مسیح جن میں سے ایک کا تعلق ملک کی اکثریت اور دوسری کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے۔

ان دونوں کی پوزیشن کے آپسی موازنے کے حوالے سے ایک دوست شاھدہ مجید کی فیس بک ٹائم لائن پر ان کا سٹیٹس پڑھا تو اس معاملے پر ذرا تفصیل سے لکھنے کا خیال آیا۔

بات کچھ یوں ہے کہ عافیہ صدیقی (نیورو سائنٹسٹ) جسے اپنی قابلیت کے مطابق ملک میں کہیں نوکری نہ ملی تو نوکری کی تلاش میں امریکہ چلی گئی۔ وہاں جا کر ڈاک وصول کرنے کے لیے ایک ڈاک کا ڈبہ کرایے پر لینے کی پاداش میں اس پر دہشت گردی کا الزام لگتا ہے اور بعد ازاں حکام کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آتا ہے کہ یہ ڈبہ دراصل القاعدہ سے رابطے میں رہنے کے لیے کرایے پر لیا گیا ہے۔ عافیہ صدیقی کو جب ان معاملات کی بھنک پڑتی ہے تو وہ وطن واپس آ جاتی ہے۔

اس کے بعد اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک مہذب ملک ہونے کی حیثیت سے امریکہ بہادر عافیہ صدیقی کو ملزم قرار دے کر یہاں کی حکومت سے اسے طلب کر کے اس پر مقدمہ چلاتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ایک دن عافیہ صدیقی اپنے گھر سے ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے سے اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ اس کے برسوں بعد ایک دم امریکی سرکار کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کے امریکہ لایا گیا ہے تاکہ اس پر دہشت گردی کے حوالے سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ اس پر ہماری حکومت دم سادھے رہی اور کسی قسم کی کوئی آواز حلق سے برآمد نہیں ہونے دی۔

بعد میں پتہ چلتا ہے کہ عافیہ نے دورانِ تفتیش ایک تفتیشی اہلکار پر اسی کی رائفل سے جان لیوا حملہ کرنے کی کوشش کی جسے ناکام بنانے کے لیے دیگر اہلکاروں کو نہ صرف اس پہ ”مجبوراً“ گولیاں چلانی پڑی جس کے نتیجے میں وہ موت کے قریب جا پہنچی بلکہ امریکی اہلکار پر حملے کے الزام میں اس پر مقدمہ چلا اور اسے مجرم قرار دے کر 86 سال کی قید سُنا دی گئی۔

اس وقت بھی حکومت باقاعدہ نیند میں بلکہ دم سادھے رکھنے کی وجہ سے بے ہوشی میں چلی گئی۔

وہ دہشت گردی جس کے الزام پر عافیہ صدیقی سے تفتیش کی جا رہی تھی اس کا کوئی ثبوت ملا یا نہیں اس پر تو دوبارہ کچھ سامنے ہی نہیں آیا اور نہ ہماری کسی سرکار میں کبھی اتنی ہمت ہوئی کہ ان سے جواب طلبی کر سکے کیونکہ وہ ہنوز بے ہوش ہے۔

اہلکار پر حملے کا بھی کوئی گواہ سامنے لایا گیا نہ کوئی ویڈیو فوٹیج آج تک ملی جس سے جرم ثابت ہو سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس سارے معاملے کو من گھڑت اور بعید القیاس قرار دیا۔
اس کے باوجود عافیہ صدیقی اپنی قید کے 86 سال پورے کرنے یا زندگی کے دن گننے پر مجبور ہے، دیکھیے پہلے کون سی گنتی پوری ہوتی ہے۔ اس سارے دورانیے میں ہمارے عوام کو ایک دن بھی عافیہ صدیقی کے لیے آواز اٹھانے یا احتجاج ریکارڈ کروانے کا خیال نہیں آیا۔ ایک دن بھی کسی نے حکومتی ایوانوں کے سامنے دھرنا دے کر اسے مجبور نہیں کیا کہ وہ ہماری بہن کو امریکہ کے چنگل سے آزاد کروائے یا کم از کم اس کے جرم کا ثبوت طلب کرے۔

دوسری طرف آسیہ مسیح ایک اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی مزدور لڑکی جس پر ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کا مقدمہ دائر ہوتا ہے۔ سیشن کورٹ سے کئی گواہوں کی شہادت اور بھرے مجمعے میں اقبالِ جرم کے نتیجے میں مجرم ثابت ہو کر پھانسی کی سزا پاتی ہے۔ مقدمہ پر ہائی کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے اور وہاں بھی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ لیکن پھر بات ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جا پہنچتی ہے اور وہاں سے اچانک فیصلہ سامنے آتا ہے کہ آسیہ معصوم ہے اور اسے ناموسِ رسالت پر حملے کے الزام سے باعزت بری کیا جاتا ہے۔

اس سارے منظرنامے میں جو بات قابلِ توجہ ہے وہ یہ ہے کہ بات ساری غیرت و حمیت کی ہوتی ہے۔ جو جتنا غیرت مند ہو گا اس کا عمل اتنا ہی جرأت مندانہ ہو گا۔

اس ملک میں رہتے ہوئے ایک اقلیتی طبقے نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی ثابت قدمی سے یہ واضح کیا کہ آواز اٹھانے کے لیے تعداد نہیں جرأت اہم ہوتی ہے۔ حکومت نہیں حقوق کی پہچان اہم ہوتی ہے۔ اقتدار نہیں اتحاد اہم ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف اکثریت ایک بار پھر بندر بنی کسی کی ڈگڈگی پہ ناچ رہی ہے۔

کسی بھی جنگ کو جیتنے میں دو چیزیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، ایک آپ کی طاقت اور دوسری مخالف کی کمزوری۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کو استعمال کرنے کا شعور اور دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی چابک دستی۔ اس سب سے بڑھ کر اپنے مقصد کے حصول کے لیے حکمتِ عملی، منصوبہ بندی اور مسلسل جدو جہد۔

منتشر قوموں میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔ اس وقت فی زمانہ جس قدر مسلمان قوم خصوصاً پاکستانی انتشار کا شکار ہیں اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملتی ہو۔

دراصل جب تک رہنما کا قبلہ درست نہیں ہوتا تب تک اتباع کرنے والے منزل حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے اور ہمارا تو رہنما (چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی) ہمیشہ کٹھ پتلی رہا ہے۔

ایسی صورت میں جب کوئی رہنما میسر نہ ہو اور آگے بڑھتے رہنا بھی ناگزیر ہو تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی راہ نکالتا ہے۔ اس کے لیے بھلے دوسروں کے گھر ٹوٹیں یا باغ اجڑیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ بلکہ خود راہ نکالنے والا بھی اس امر سے بے خبر ہوتا ہے کہ جو راہ اس نے نکالی ہے وہ اسے کس طرف لے کر جائے گی۔ یہی لاتعلقی اور بے خبری انسان کو بے حس بناتی ہے۔ اور ایسے بے حس انسانوں کا گروہ کبھی قوم بن کر نہیں ابھر سکتا۔ کیونکہ ان کی نہ کوئی ذاتی سوچ ہوتی ہے نہ نظریہ۔

وہ صرف بندر بن کر رہ جاتے ہیں جو ایسی ہر ڈگڈگی پر ناچ جاتا ہے جس کے بدلے میں اسے کیلا میسر آ سکے۔

اور جب کبھی کیلے کی جگہ اس کے ہاتھ ماچس آ جاتی ہے تو وہی بندر اس ماچس سے یہ سوچے بغیر ہر طرف آگ لگاتا پھرتا ہے کہ اگر یہ آگ بھڑک گئی تو اس کی لپیٹ میں وہ خود بھی آ سکتا ہے۔

ہماری موجودہ حکومت جو اس وقت سو دن کے خودساختہ عوامی ریمانڈ پر ہے۔ اس نومنتخب حکومت نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح اپنی انتخابی مہم کے دوران عافیہ صدیقی کا نام لے کر عوام کے دلوں کو خوب ہی گرمایا بلکہ برمایا تھا اور اب بھی اس کے سو روزہ منشور میں عافیہ صدیقی کا معاملہ شامل ہے جبکہ اس معاملے پر تاحال کوئی معمولی سی پیش رفت بھی سامنے نہیں آئی۔

یوں بھی ہمارے ہاں پولیٹیکل سائنس ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی کہ تیسرا مہینہ لگنے کے باوجود حکومت کی جنس کا ہی واضح طور پر اندازہ لگا سکے کہ یہ نر ہے یا مادہ یا پھر مخلوط اور یہ حمل قدرتی ہے یا مصنوعی، دیگر معاملات تو بعد کی بات ہے۔

دوسری طرف کھیلی کھائی، گھاگ بلکہ خرانٹ اپوزیشن ہے جو کئی بار حکومت کر چکی ہے اور حکومت کے سارے حربوں اور ساری ضربوں سے خوب واقف ہے۔

تبھی اس نے اس وقت پورے ملک میں آسیہ کی رہائی کے خلاف احتجاج کے نام پر انتشار پھیلا رکھا ہے اور ملک بھر کا نظامِ زندگی درہم برہم کر کے رکھا ہوا ہے۔ عافیہ صدیقی کے معاملے میں اس اپوزیشن کا کردار بھی عافیہ کی بہن سے اس وعدے تک محدود ہے کہ وہ دونوں ایوانوں میں اس معاملے پر آواز اٹھائیں گے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا ہو گا کب!

عین ممکن ہے کسی دن یہ خبر آ جائے کہ عافیہ صدیقی مر گئی اور یہ خبر ہمارے بے ہوش حکام اور مدہوش عوام کے لیے تازیانہ ثابت ہو۔ لیکن ایک تازیانے سے دھاتی پیٹھوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ واقعی سچ ہے کہ

”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا“

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے تندہی سے کوشاں ہیں اور بھرپور کام کر رہی ہیں لیکن حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی انہی کے لیے اپنا علم بلند کرتی ہیں جو خود کو انسان سمجھتے ہوں اور جنہیں اپنے حقوق کی نہ صرف پہچان ہو بلکہ انہیں طلب کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ ورنہ تو مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
فی الحال تو ہر طرف یہی نظر آ رہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح کٹھ پتلی حکومت کی طرف سے، ہمیشہ کے کنفیوزڈ عوام کو مزید الجھایا جا رہا ہے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).