اکوڑہ خٹک اور مولانا سمیع الحق متبادل کون ہو ؟


پشاور سے پچاس کلومیٹر مشرق میں ضلع نوشہرہ کی حدود میں ایک قصبہ ہے۔ کہنے کو یہ چھوٹا اور پسماندہ سا قصبہ ہے لیکن ”اپنے سینے پر تواریخ اور صدیوں کے جابجا سنگ میل ثبتکیے ہوئے ہے۔ قصبے کو سولہویں صدی میں ملک اکوڑہ خان خٹک نے آباد کیا تھا۔ ملک اکوڑہ خان کو شہنشاہ اکبر نے اپنے تعاون کی وجہ سے علاقے کی جاگیرداری اور شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جی ٹی روڈ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ملک اکوڑہ خٹک کو اکبر نے اٹک کے گھاٹ سے دریائے سندھ عبور کرنے والوں سے راہداری ٹیکس وصول کرنے کا اختیار نامہ بھی دیا تھا۔

اکوڑہ خٹک کی مستقل سکونت کی وجہ سے علاقے کا نام اکوڑہ خٹک پڑ گیا۔ پشتو زبان کے مشہور شاعر اور مجاہد خوشحال خان خٹک اکوڑہ ختک کے پوتے اور سردار شہباز خان خٹک کے بیٹے تھے۔ خوشحال خان خٹک اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس غیر معمولی قصبے میں خوشحال خان خٹک کی آرام گاہ سے کچھ فاصلے پر صوفی بزرگ شیخ رحمکار عرف کاکا صاحب کا مزار ہے۔

خوشحال خان خٹک نے یوں تو اپنی عمر مغلوں کی خدمت میں گزاری۔ شہنشاہ شاہجہاں اس کی بہترین جنگجو صلاحیتوں کا معترف تھا اور بیشتر مہمات پر خوشحال خان خٹک شاہجہاں کے ہمراہ رہا۔ لیکن مغل سلطنت کے چشم و چراغ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے باپ شاہ جہاں کا تختہ الٹا، بھائیوں جمشید اور داراشکوہ نے فرار کی راہ اختیار کی۔ اس موقع پر خوشحال خان خٹک ہی تھا جس سے اس مغل شہنشاہ کو خطرہ در پیش تھا اور اسی کے پیش نظر دہلی کے فرمانروا نے باغی ہونے کا الزام لگا کر دھوکے سے خوشحال خان کو گرفتار کروا لیا۔

اورنگزیب نے خوشحال خان خٹک کے اثر و رسوخ کے خاتمے کے لئے اس کے بیٹے بہرام کو قبیلے کا سردار بنانے کی کوشش کی اور باپ کو قتل کرنے کا کام بہرام خان کو سونپا لیکن وہ ناکام رہا۔ خوشحال خان خٹک نے مغلوں کے خلاف پشتون جنگجوؤں میں شمولیت اختیار کر کے دہلی کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ ان کی پشتو شاعری میں بھی اس بغاوت کے تاثرات جا بجا ملتے ہیں،

” اگرچہ میں مغلوں کے نمک کاپروردہ ہوں۔ لیکن اورنگزیب کے ہاتھوں بہت غضبناک ہوں۔ ناحق چند سال تک مجھے زندان کیا۔ خدا جانتا ہے کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ میں نے افغان قوم کی ننگ و ناموس کی خاطر اپنی کمر سے تلوار باندھ لی ہے۔ میں زمانے بھرکا غیرت مند خوشحال خان خٹک ہوں۔ ”

اکوڑہ خٹک 983 ہجری میں پیدا ہونے والے سلسلہ سہروردی کے مشہور بزرگ شیخ المشایئخ شیخ رحمکار عرف کاکا صاحب کی بدولت بھی اطراف و اکناف میں مشہور و معروف ہے۔ قمری سال کی 24 رجب المرجب کو زائرین کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ اکوڑہ خٹک میں دو بڑی دینی درسگاہیں دارلعلوم حقانیہ اور جامعہ اسلامیہ ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق مرحوم نے یہیں سے دینی مجلہ“ الحق ”جاری کیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کی زیر ادارت یہ مجلہ آج بھی زیر اشاعت ہے۔

تواریخ اور صدیوں کے حوالوں میں تو اکوڑہ خٹک سلاطین دہلی و لاہور کے ساتھ ساتھ افغان اور پختون خطے میں منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے۔ جدید تاریخ بالخصوص بیسویں صدی میں بھی اکوڑہ خٹک محور و مرکز رہا۔ پختونوں کے مشہور قبیلہ خٹک نے دو ہی مقامات کو اپنا مرکز بنایا۔ ان میں سے ایک ٹری کرک اور دوسرا اکوڑہ خٹک ہے۔

پاکستان کے مشہور سیاستدان، شاعر، ادیب، سکرپٹ رائٹر اور قوم پرست رہنما اجمل خٹک بھی اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ اپنے ترقی پسند خیالات کے باعث خان عبدالغفار خان سے متاثر ہوئے اور پختونستان کی حمایت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو دور مین افغانستان جلاوطنی اختیار کی۔ روس کی شکست کے بعد واپس آکر ملک میں عملی سیاست کی، سینیٹر بنے اور ایک دن ریٹائر ہو گئے اور پچاسی برس کی عمر میں 2010 میں انتقال ہوا۔ ان کی قبر بھی اکوڑہ خٹک میں ہی ہے۔

شاعر، ادیب، صوفی، مجاہد، معلم، مفسر، علاقائی سیاست اور پختون جنگجوؤں کی درسگاہوں کے لئے مشہور اکوڑہ خٹک نے ایک اور ہمہ جہت، نابغہ عصر اور پراسرار شخصیت کو جنم دیا۔ جنہیں مغرب کے لادین طبقوں سے مشرق کے آزاد خیال لوگوں نے بھی تسلیم کیا، جس نے دور دراز خیبر پختونخوا کے قصبے اکوڑہ خٹک میں بیٹھ کر ریاست کے معاون امور کی انجام دہی کی، مغربی سرحد کے اس پار برسرپیکار قوتوں کو اشارہ ابرو سے نیازمندی میں لیا، جسے سرخ انقلاب کے حامیوں نے دنیا میں طاقت کے توازن کے خاتمے کی ایک وجہ گردانا، اور جسے سرمایہ دارانہ نظام کا سامراج ان کی شہادت تک بیک وقت امن کی راہ میں رکاوٹ اور اس کا ذریعہ بھی سمجھتا رہا۔

” مولانا سمیع الحق ”1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ معلم، محقق، مبلغ“ فقہ ادب، منطق، فلسفہ، صرف و نحو، تفسیر و حدیث سمیت عربی، اردو اور پشتو پر عبور رکھنے کے علاوہ سیاستدان، سینیٹر، مزاحمتی رہنما، گوریلا جنگجوؤں کا کنگ میکر اور گاڈ فادر۔ اکوڑہ خٹک کے اس برزگ رہنما مولانا سمیع الحق کے اور بھی بہت سے پراسرار پہلو تھے۔

عمر کی آٹھ دہائیاں خیبر پختونخواکی درسگا دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں درس و تدریس میں گزار دیں۔ لیکن صرف درس و تدریس کہا جائے تو بات بے حد سادہ ہو جائے گی۔ سرحد کے اس پار اپنے ملک میں حکام کو جب جب سرحد کے اس پار افغانستان میں مشکلات درپیش آتیں تو مولانا سمیع الحق کی درسگاہ کا دروازا کھٹکھٹایا جاتا۔ اور یونہی جب جب سرحد پار افغان حکام کو برسرپیکار جنگجوؤں کی اذیت کا سامنا ہوتا تو کیا امیر اور کیا سفیر، دارالعلوم حقانیہ سفارت کاری کا مرکز بن جاتا۔

مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر، ملا اختر منصور، جلال الدین حقانی سمیت بیشتر طالبان رہنماؤں کی درسگاہ تصور کیا جاتاہے۔ یہی نہیں پاکستان میں مذہبی سیاست کے سرخیل جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی 1979 میں اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ یوں دارالعلوم حقانیہ کو یہ سہرا بھی جاتا ہے کہ اس نے افغان گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بیشتر پارلیمانی سیاستدان بھی پیدا کیے۔

ملا عمر کی 2013 میں ہلاکت کی خبر ویسے تو 2015 میں اسوقت منظر عام پر آئی جب مری میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ کچھ پس و پیش کے بعد افغان طالبان نے ان کی موت کی تصدیق کی اور ملا اختر منصور کو افغان طالبان کا نیا امیر بنا دیا گیا۔ ملا اختر منصور کی طرز امارت پر جب افغان طالبان کے دھڑوں میں اختلافات بڑھے تو شکایت کنندہ گروہ اکوڑہ خٹک میں مدرسہ دارالعلوم حقانیہ میں مولانا سمیع الحق کے پاس پہنچا اور رہنمائی طلب کی۔

زیرک اور بزرگ طالبان معلم نے انہیں آپس کے اختلافات ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ اور یکے بعد دیگرے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے مخالفین سے رابطے کر کے آپس کے تنازعات حل کرائے۔ ملا اختر منصور کی سربراہی میں افغان طالبان نے حکومتی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو پاکستان میں افغان سفیر دوڑا بھاگا مولانا سمیع الحق کے پاس پہنچا اور طالبان سے رحم کرنے کی درخواست پیش کی۔ مولانا نے افغان سفیر کو طالبان کے تحفظات سے آگاہ کیا اور افغان حکومت سے طالبان مخالف لچک دکھانے کا مطالبہ کیا۔

گذشتہ ماہ کابل سے آئے اعلی سطح کے وفد نے بھی مولانا سمیع الحق سے خصوصی ملاقات کر کے ان سے افغانستان میں امن کی اپیل کی۔ یہی نہیں افغان صدر اشرف غنی نے بھی مولانا سمیع الحق کو فون کیا اور التجا کی کہ وہ طالبان پر اپنا اثر بروئے کار لائیں اور افغان امن کی راہ ہموار کریں۔ مولانا سمیع الحق کو افغان مذاکراتی عمل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی گئی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔

اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان، دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو اور اب دو نومبر کی سرد شام کو افغان طالبان کے رہبر، پاکستانی مفادات کے حامی، امن پسند اکیاسی سالہ بزرگ اور زیرک سیاستدان مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں خاموش کروا دیا گیا۔ مولانا کو راولپنڈی سے اکوڑہ خٹک لے جا کر اسی مدرسہ دارالعلوم حقانیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا جہاں عمر کی آٹھ دہائیاں انہوں نے درس و تدریس، سفارت کاری، صلح جوئی اور رہنما ئی کی تھی۔

خوشحال خان خٹک جیسے عظیم پشتو شاعر اور مجاہد، شیخ رحمکار عرف کاکا جیسے صوفی بزرگ، مولانا عبدالحق جیسے عالم دین اور اجمل خٹک جیسے ترقی پسند، آاد خیال شاعر ادیب اور سیاستدان کے بعد اکوڑہ خٹک کی تنوع سے بھرپور مٹی میں پشتون سرزمین کا سفارتکار رہنما بھی جا سویا۔ تمام عمر افغان امن کی کوششیں کرنے والے مولانا سمیع الحق کے اکوڑہ خٹک کے اس پار افغانستان میں ان کو رہبر بابا ماننے والے افغان طالبان کسی ہاتھ پر استاد محترم کا لہو تلاش کرنے نکلے تو نجانے کیا ہو اور نجانے اب کی بار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مولانا سمیع الحق کا متبادل کون ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).