ذیابیطس اور ہیموگلوبن اے ون سی


آپ سب سے دو ضروری باتیں کرنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ میرے انٹرنل میڈیسن کے امتحان کا نتیجہ آگیا اور میں ‌ پاس ہوگئی۔ شکریہ شکریہ۔ دوسری یہ کہ ڈاکٹر سہیل ’ہم سب‘ پر کالم لکھنے میں مجھ سے بعد میں آئے تھے لیکن مجھ سے آگے نکل گئے۔ اب اگلے پورے مہینے مجھے ہر روز ایک مضمون لکھنا پڑے گا تاکہ کیچ اپ کرسکوں۔ مسکراہٹیں۔

آج کا مضمون ہیموگلوبن اے ون سی سے متعلق ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ میں ‌ ذیابیطس کے مریض‌ روزانہ دیکھتی ہوں۔ ذیابیطس ایک طویل عرصے کی پیچیدہ بیماری ہے جس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو اس کی پیچیدگیاں ‌ پیدا ہوتی ہیں۔ زیادہ تر مریض‌ اس لیے ریفر کیے جاتے ہیں ‌ کہ علاج کے باوجود ان کی ذیابیطس کا کنٹرول بگڑا ہوا ہوتا ہے جس میں ‌ ان کی ہمیوگلوبن اے ون سی بڑھ جاتی ہے۔ سال میں ‌ ایک آدھ مریض‌ اس لیے بھی ریفر کیے جاتے ہیں کہ ان کی ہیموگلوبن اے ون سی بہت کم ہوتی ہے۔

ہیموگلوبن اے ون سی کیا ہے؟

ہمارے خون میں دو طرح‌ کے جسیمے ہیں، سرخ جسیمے اور سفید جسیمے۔ سفید جسیمے ہمارے جسم میں ‌ پولیس مین کا کام کرتے ہیں جو بیکٹیریا اور وائرس سے لڑ کر ہمیں ‌ بیماریوں ‌ سے بچاتے ہیں۔ سفید جسیموں ‌ کی مختلف اقسام ہیں اور ان سب کے دفاع کے میدان میں ‌ مختلف کردار ہیں۔ سرخ جسیموں ‌ کا کام جسم میں ‌ آکسیجن سپلائی کرنا ہے۔ یہ سرخ جسیمے ڈو نٹ کی ساخت کی طرح‌ ہوتے ہیں۔ ان میں ‌ دیگر خلیوں ‌ کی طرح‌ ایک نیوکلس ہوتا ہے اور سائٹو پلازم بھی۔

خون کے سرخ‌ جسیموں ‌ میں ‌ ہیموگلوبن پائی جاتی ہے جو کہ ایک فولاد اور پروٹین کا مرکب ہے۔ ہیموگلوبن کا ایک مالیکیول چار آکسیجن مالیکول اٹھا سکتا ہے۔ پھیپھڑوں ‌ میں ‌ سے گزرتے ہوئے یہ سرخ جسیمے آکسیجن جذب کرتے ہیں ‌ اور اس کو جسم کے دیگر حصوں ‌ تک پہنچاتے ہیں۔ خون کے سرخ جسیمے کی طبعی عمر قریب 120 دن ہے۔

ایک ذیابیطس کے مریض‌ میں ‌ چونکہ شوگر کا لیول بڑھا ہوتا ہے، یہ خون کے سرخ‌ جسیمے اس شوگر کو جذب کرلیتے ہیں ‌ جو ہیموگلوبن کے ساتھ جڑ کر ہیموگلوبن اے ون سی بنانے کا سبب بنتا ہے۔ ہیموگلوبن اے ون سی کے ذریعے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ایک مریض‌ میں پچھلے تین مہینے میں ‌ اوسط شوگر کتنی تھی۔ دن اور رات میں ‌ شوگر گھٹتی بڑھتی رہتی ہے لیکن ہیموگلوبن اے ون سی نسبتاً مستقل رہتی ہے۔ اسی لیے جب کوئی مریض‌ کہتے ہیں ‌ کہ ہماری اے ون سی زیادہ ہے کیونکہ ہم نے آج میٹھا ناشتہ کیا ہے تو یہ بات درست نہیں ‌ ہے۔ ہیموگلوبن اے ون سی کی دریافت کا سہرا ایرانی ڈاکٹر رہبر کے سر جاتا ہے جن کو اس اہم دریافت پر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ موضوع ایک الگ مضمون لکھنے کے لائق ہے۔

ہیموگلوبن اے ون سی کے لیول کا کیا مطلب ہے اور اس کا انگلی سے خون نکالے ہوئے نمونے میں ‌ موجود شوگر سے کیا تعلق ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے دیے گئے چارٹ کو دیکھیے۔ اگر کسی خاتون کی ہیموگلوبن اے ون سی 7 % فیصد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی بلڈ شوگر پچھلے تین مہینے میں ‌ اوسطاً 154 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر تھی۔ چھ اعشاریہ پانچ فیصد ہیموگلوبن اے ون سی کا مطلب ہوا کہ آپ کے مریض‌ کو ذیابیطس ہے۔ پانچ فیصد سے لے کر پانچ اعشاریہ چھ تک ہیموگلوبن اے ون سی کو نارمل تصور کیا جاتا ہے اور پانچ اعشاریہ سات سے لے کر چھ اعشاریہ چار تک کو پری ذیابیطس کہتے ہیں۔ پری ذیابیطس وہ سطح ہے جس میں ‌ ابھی ذیابیطس نہیں ‌ ہوئی ہے لیکن یہ مریض‌ ذیابیطس ہوجانے کے خطرے میں ‌ ہیں۔ کھانے پینے میں ‌ احتیاط اور باقاعدہ ورزش سے پری ذیابیطس کو ذیابیطس میں ‌ تبدیل ہوجانے سے بچایا جاسکتا ہے۔

ہیموگلوبن آے ون سی کے ریفرنس رینج سے کم ہونے کا کیا مطلب ہے؟

آج تک جتنے بھی مریضوں ‌ کو ہیموگلوبن اے ون سی کم ہونے کی وجہ سے میرے پاس ریفر کیا گیا، میں نے ان سب کی وجہ انیمیا دیکھی ہے۔ جب ہم اوپر دی گئی فزیالوجی سمجھ لیں ‌ گے تو ہمیں ‌ یہ بھی سمجھ میں ‌ آجائے گا کہ جب کسی شخص‌ میں ‌ خون کے سرخ‌ جسیموں ‌ کی تعداد کم ہو تو اسی لحاظ سے اس میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی بھی کم ہوگی۔ یہ کم اے ون سی کسی بھی علاقے کے نارمل باسیوں ‌ کے مقابلے میں ‌ یقیناً ایب نارمل ہے لیکن انیمیا کے مریض‌ میں ‌ ایک متوقع بات ہے۔

ان مریضوں ‌ کو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ اے ون سی پر دھیان دینے کے بجائے انیمیا کا علاج کریں تو اے ون سی خود ہی زیادہ ہوجائے گی۔ اس نقطے کو ہم ذیابیطس کے علاج میں ‌ کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ جن مریضوں ‌ میں ‌ کسی بھی وجہ سے انیمیا کی بیماری ہو تو ان کے ذیابیطس کے علاج میں ‌ ہمیں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی پر انحصار کرنے کے بجائے ان کی خون میں ‌ شوگر کی مقدار پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ اگر ہیموگلوبن اے ون سی کو دیکھتے رہے تو اس سے یہ غلط تاثر ملے گا کہ بیماری قابو میں ‌ ہے۔

نارمل اور ایب نارمل میں ‌ فرق

جب بھی ہم یہ جاننا چاہیں ‌ کہ کسی بھی اینزائم، الیکٹرولائٹ یا منرل کی نارمل رینج کیا ہے تو اس کے لیے شہر میں ‌ سے کوئی ایک ہزار صحت مند لوگوں ‌ کے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور ان کے نتائج کو دیکھ کر نارمل رینج طے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ٹیسٹ کسی فرد کے لیے اس نارمل رینج میں ‌ ہو تو ضروری نہیں ‌ ہے کہ یہ اس شخص کے لیے بھی نارمل ہے۔ اسی طرح‌ اگر کوئی ٹیسٹ اس نارمل رینج سے باہر آیا ہے تو ضروری نہیں ‌ ہے کہ یہ اس مریض‌ کے لیے ایب نارمل ہے۔

ہر چیز کسی اور چیز سے منسلک ہے اور ایک ٹیسٹ کا نتیجہ دوسری چیزوں ‌ سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کو ایک وسیع پس منظر میں ‌ دیکھے بغیر درست تجزیہ ممکن نہیں ‌ ہے۔ اکثر ایک نمبر کو ٹھیک کرنے کے لیے دوسرے نمبر پر دھیان دینا ضروری ہے۔ جیسا کہ وٹامن ڈی کا لیول ٹھیک کرنے سے پیراتھائرائڈ ہارمون کا لیول ٹھیک ہوجائے گا۔

آپ کی ہیموگلوبن اے ون سی کتنی ہونی چاہیے؟

دنیا کے کسی بھی سوال کا جواب ہر انسان کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی کے گول مختلف ہیں۔ امریکن ذیابیطس اسوسی ایشن کے مطابق زیادہ تر ذیابیطس کے مریضوں ‌ میں ‌ اے ون سی کا ٹارگٹ 7 فیصد ہے۔ ایسے نوجوان افراد جن کو حال ہی میں ‌ ذیابیطس تشخیص کی گئی ہو، ان میں ‌ امریکن اسوسی ایشن آف کلنکل اینڈوکرنالوجسٹس کے مطابق اے ون سی کا ٹارگٹ چھ اعشاریہ پانچ ہے۔ عمر رسیدہ افراد میں ‌ یہ ٹارگٹ 7 سے 8 فیصد کے درمیان ہے۔ عمر رسیدہ افراد میں ‌ ہم ذیابیطس کی طویل عرصے کی پیچیدگیوں ‌ سے زیادہ اس کی فوراً ہوجانے والی پیچیدگیوں ‌ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ ریسرچ سے یہ پتا چلتا ہے کہ خون میں ‌ شوگر کم ہوجانے سے ان افراد میں ‌ دل کے دورے اور اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

امید ہے کہ اس مختصر مضمون سے قارئین کی معلومات میں ‌ اضافہ ہوگا اور آپ اس کو اپنی زندگی بہتر بنانے میں ‌ استعمال کرسکیں ‌ گی۔ اگر آپ کے ذہن میں ‌ کوئی سوال ہوں تو ضرور لکھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).