ڈیم کیوں اور کیوں نہیں؟


پاکستان میں ڈیم بننے چاہئیں، ایک رائے ہے اور ڈیم نہیں بننے چاہئیں، دوسری رائے۔ دونوں کی آرا کو سنوں تو دونوں میں بہت وزن پایا جاتا ہے لیکن جو رائے ڈیم مخالفین کی ہے اس کو ملک دشمنی کے مترادف سمجھ کر سمجھنا تو دور کی بات، اسے سننے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں۔

ڈیم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جدید شہروں میں ہر گھر میں ایک انڈر گراؤنڈ پانی کا ٹینک ہوتا ہے اور ایک ٹینک اوور ہیڈ کہلاتا ہے۔ انڈر گراؤنڈ ٹینک ایک چھوٹا سا ڈیم ہوتا ہے جس میں پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور اوور ہیڈ ٹینک بھی ڈیم ہی ہوتا ہے لیکن اس کی مثال بیراجوں جیسی ہوتی ہے۔ ڈیم (انڈر گراؤنڈ ٹینک) سے ہم اپنے گھر کے لئے پانی ذخیرہ کر لیتے اور اوور ہیڈ ٹینک (بیراج) کی مدد سے اس پانی کو گھر کے ایک ایک کونے تک پہنچانے کا بدوبست کیا جاتا ہے۔

اگر انڈر گراؤنڈ ٹینک نہیں ہو تو جن اوقات میں پانی نہیں آتا ان اوقات یا دنوں یا گھنٹوں میں کس طرح گزارہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر اوور ہیڈ ٹینک نہیں ہو تو گھر کے ایک ایک کونے میں پانی کی تر سیل کس قدر دقت طلب کام بن جائے۔ ثابت ہوا کہ دونوں ”ذخیروں“ کی اپنی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے۔ ڈیموں کے بغیر پانی کو ذخیرہ کرنا اور بیراجوں کے بغیر نہری نظام کو فعال بنانا، دونوں ہی کام ایسے ہیں جس کے بغیر ملک میں زراعت کے نظام کو چلانا اور پینے کے پانی کو آبادی کے لئے فراہم کرنا ممکن نہیں۔

یہاں ہم ایک چیز ہمیشہ فراموش کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم گھروں کے لئے انڈر گراؤنڈ ٹینک بنائیں یا اوورہیڈ ٹینک تعمیر کریں، سب سے پہلی شرط پانی کا ہونا ہے۔ اگر پانی موجود ہی نہیں ہے یا موجود تو ہے لیکن وہ مقدار میں کم ہے یا بہت ہی کم ہے تو پھر انڈر گراؤنڈ یا اوور ہیڈ ٹینک بنا کر جو فوائد حاصل کرنا مقصود ہیں وہ نہ صرف یہ کہ حاصل نہ ہو سکیں گے بلکہ جو اخراجات ان مدآت میں کیے جائیں گے وہ فضولیات میں تو شمار ہو سکتے ہیں کسی مثبت کام میں ہر گز نہیں ہو سکتے بلکہ دیکھا جائے تو اس میں عوام کی خوشحالی کی بجائے بدحالی اور پریشانی میں اضافے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

گھروں میں پانی ذخیرہ کرنا بہت ضروری ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ سمجھنے کی ہے کہ کیا پانی کی سپلائی اتنی ہے کہ ہر گھر کا ٹینک بآسانی بھر جائے؟ میرا خیال ہے کہ کسی بھی شہر میں پانی کی ترسیل اس شہر کی ضرورت سے بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہوتا یہ ہے کہ کچھ گھر تو بے شک اس پانی کو ”سک“ کرکے اپنی ضرورت کو کسی حد تک پورا کر لیتے ہیں لیکن ایک کثیر آبادی پانی کی کمی یا بالکل ہی محرومی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہر آنے والے دنوں کے ساتھ پانی کی کمی اور محرومی کی شکایت کچھ علاقوں میں بڑھتی جا رہی ہیں جس کا سب سے بڑا سبب پانی کو آخر تک پہنچنے سے قبل ہی ذخیرہ کر لینا یا نقب لگا کر راستے میں چرالینا یا ہائی ڈنٹ تعمیر کرلینا جیسے کام ہیں جس کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر یہاں تک بات سمجھ میں آرہی ہے تو پھر باقی بات کو سمجھ لینا آسان ہو جائے گا اور ان معذورات کو بھی سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی جس کو جواز بنا کر ملک کی ایک کثیر آبادی ڈیم بنانے کی مخالف ہے۔

میری عمر کے لوگ بہت اچھی طرح آگاہ ہوں گے کہ ایک زمانے میں ملیر ندی ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند ہوا کرتی تھی اور سال میں ایک مرتبہ تو یہ اپنے پشتوں سے باہر نکل کر آس پاس کی بستیوں اور کارخانوں کا صفایا کردیا کرتی تھی یہی حال لیاری کا تھا لیکن برس ہا برس سے یہ شدید بارشوں میں بھی ایک پرنالے کے برابر نہیں بہتی۔ ایک ایک میل لمبے ریلوے اور ٹریفک پل اس بات کی شہادت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ ندی کیا بلا ہوتی ہوگی۔

ملیر ندی کے اطراف میلوں دور تک گھیت اور باغات ہوا کرتے تھے اور آس پاس کی زمین میٹھے پانی کا ذخیرہ۔ اس کی خشکی سارے کھیت، کھلیان اور باغات ہی کو نہیں لے بیٹھی، میٹھے پانی کے ذخائر کو بھی نگل گئی۔ کھیتوں، کھلیانوں اور باغات کی تباہی نے کراچی کو ایک معتدل شہر سے گرم اور خشک شہر میں تبدیل کر کے رکھ دیا اور آبادیوں سے میٹھے پانی کی نعمت بھی چھین لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پانی کہاں گیا؟ ، جواب ندی پر چھوٹے چھوٹے ڈیم پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بن گئے اور وہ کراچی جو کبھی باغوں، کھیتوں، کھلیانوں اور ہرے بھرے درختوں والا شہر ہوا کرتا تھا وہاں خاک، دھول اور گردوغبار کا راج ہے اور پاکستان کے وہ لوگ جو گرمیاں منانے کراچی آیا کرتے تھے اب ان کو گرم لوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اب موسم انجوائے کرنے شاید ہی کوئی یہاں آتا ہو۔

ہر اچھائی میں ایک برائی ضرور ہوتی ہے۔ بے شک انسان اپنی آسانیوں میں اضافے کے لئے رات دن فطرت میں تبدیلیاں کرتا جارہا ہے۔ اس کی یہ ایجادات یا قدرت کے کاموں میں مداخلت اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی جارہی ہیں لیکن قدرت سے بغاوت بھی اس کی تکالف میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ کارخانے جہاں اس کی ضرورتوں کی اشیا فراہم کر رہے ہیں وہیں اس کی فضاؤں کو زہر آلودہ کر رہے ہیں اسی طرح جہاں پانی کے بڑے بڑے ذخیرے اس کی ضرورتیں پوری کرنے کا سبب ہیں وہیں ان ذخیروں سے چند سو کلومیٹر دور زمینوں کو بنجر اور میٹھے پانی کے ذخیروں میں کمی کا سامنا بھی در پیش ہے۔

ان سب باتوں کو سامنے رکھا جائے تو ڈیم مخالفین کی باتیں اتنی زہر نہ لگیں جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈیم کی باتیں کرنا ایسا ہی ہے جیسے شہروں میں بنا منصوبہ ہر گھر کو اس بات کی اجازت دیدینا کہ وہ انڈر گراؤنڈ ٹینک بنا ئے اور پھر اس میں پانی سک کرنے کے لئے موٹر بھی لگائے اور اس بات کو بھول جائے کہ پانی کی ترسیل کتنی ہے اور ترسیل کے مطابق ہر شہری کو اس پر برابر کا حق حاصل ہے۔

یہ بات نہیں کہ پاکستان میں ڈیم نہیں ہیں، ڈیم ہیں لیکن ان سے فراہم کیے جانے والے پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ ایک جانب پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور دوسری جانب اس پر نقب زنی، نئے ڈیموں کی تعمیر میں ایک ایسی رکاوٹ ہے جس پر لوگ بھوک افلاس اور پیاس سے مرجانے کو ترجیح دینے پر تیار ہیں۔ پاکستان میں ڈیم ہیں لیکن ان ڈیموں سے جس پانی کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے وہ سمندر تک پہنچنے سے بہت قبل ہی قبضہ مافیا یا قزاقوں کے ہاتھوں خرد برد ہوجاتا ہے۔

یہ سارے کام بڑے بڑے مگرمچھ ایک تسلسل سے کرتے آرہے ہیں جس کی جانب حرکت کرتا کوئی بھی قانون نظر نہیں آتا۔ ایک جانب تو پانی کا سمندر کے نزدیک تک نہ پہنچنا اشتعال کا سبب بناہوا ہے، دوسری جانب پانی کے تر سیل کے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی صوبوں میں منافرت کو بڑھاتی جارہی ہے اور ان سب سے بڑھ کر سندھ کا ایک وسیع عریض علاقہ بشمول کراچی، بنجر اور کھاری زمینوں میں میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ان سب باتوں سے بھی بڑھ کر ایک اور خوفناک اندیشہ جنم لے رہا ہے وہ یہ ہے کہ دریاؤں کے بہنے رہنے کی صورت میں جو لاکھوں ایکڑ ریت سمندر میں گرنا بند ہو گئی ہے اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو سطح سمندر کے بلند ہوجانے کی وجہ سے بدین، حیدرآباد اور یہاں تک کہ کراچی کی ایک بڑی آبادی بھی سمندر برد ہوجانے کا امکان ہے جو خود اپنی جگہ ایک بہت ہی خوفناک بات ہے۔

پاکستان میں ہر معاملے میں منصوبہ بندی کی سخت کمی صاف نظر آتی ہے۔ جس دریا پر بند بنایا جارہا ہے اس پر پہلے ہی بڑے بڑے ڈیم موجود ہیں۔ ان ڈیموں میں ہر سال پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے اس لئے کہ لاکھوں ایکٹر ریت اس کی تہوں میں جمتی جارہی ہے۔ اگر فوری طور پر ان ڈیموں کی تہوں میں جمع ہونے اور اب تک جمع ہوتے رہنے والی ریت کو نکالنے کا انتظام کر لیا جائے تو بغیر ڈیم بنائے ایک بڑے ڈیم کے برابر پانی ذخیرہ کرنے گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شہری سال بہ سال اپنے انڈر گرؤنڈ اور اوور ہیڈ ٹینک میں سے جمع شدہ مٹی نکال کر ایک جانب پانی کو آلوہ ہونے سے محفوظ کر لیا کرتے ہیں اور دوسری جانب ٹینک کی گنجائش کو کم بھی نہیں ہونے دیتے۔

ڈیم بنانے کا ایک جواز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہر موسم میں ملین آف ملین ایکڑ پانی سمندر میں کر کر ضائع ہوجاتا ہے لیکن اس میں ہمیں دو باتوں کا خیال رکھنا ہوگا اور وہ یہ ہیں کہ کیا یہ سب پانی پورے سال اسی طرح سمندر میں گرتا ہے یا سیلابی صورتحال میں ہی گرتا ہے اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ سارا پانی صرف دریائے سندھ ہی کا ہوتا ہے؟ بات یہ ہے کہ سمندر میں کرنے والا پانی زیادہ تر ہندوستان سے آیا ہوا ان دریاؤں کا پانی ہوتا ہے جس کو ہندوستان نے ہمارے لئے بند کیا ہوا ہے۔

جب اس کے ڈیم بھرجاتے ہیں اور وہاں سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو ہندوستان اس پانی کو دریاؤں کے اصل راستے پر بہادیتا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر ہمیں اس بات پر غورکرنا ہوگا کہ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ہمیں کن کن مقامات پر ڈیم بنانے چاہئیں۔ کیا دریائے سندھ کے ان مقامات پر بند بناکر جہاں ہندوستان سے آنے والا پانی شامل ہی نہیں ہوتا یا پھر ان مقامات پر جہاں ہندوستان سے آنے والا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے، تاکہ ہم پانی کو سمندر میں گرنے سے بچا سکیں گے؟

راقم کے نزدیک ان سارے امور پر ایک سیر حاصل بحث کی اشد ضرورت ہے اور خاص طور سے اس بات کا جائزہ لینے کی کہ ہمیں دریائے سندھ کے کن کن مقامات پر ڈیم بنانے چاہئیں۔ ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر دریائے سندھ کے میدانی علاقوں میں بند بنانا ممکن نہیں ہے تو ہندوستان کے ساتھ ایک وسیع معاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ڈیم ضرور بنائے، جیسا کہ وہ بنارہا ہے، لیکن وہ ضرورت کے مطابق پاکستان کو پانی فراہم کرنے کا پابند ہو۔ یہ انسانی حقوق کا عالمگیر مسئلہ ہے اور اس میں دنیا کو اپنا شریک بنانا پڑے تو راقم کے نزدیک کوئی مضائقے کی بات نہیں۔

امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں کسی منصوبے کو منافرت یا کھنچاؤ کا سبب بنانے کی بجائے موافقین و مخالفین دونوں کی باتوں کو تحمل سے سنا جائے، دونوں کو سچا پاکستانی جانا جائے اور دونوں کو پاکستان کا مخلص سمجھ کر ان کی آرا کا جائزہ لیا جائے۔ کوئی غلط نہیں ہے اور کوئی پاکستان کا دشمن نہیں بلکہ دونوں کا اپنا اپنا ایک نقطہ نظر ہے۔ صرف قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری الجھنیں محض اس لئے ہیں کہ پانی کی قزاقی اور غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہر صوبہ ایک دوسرے کی جانب سے مشکوک ہو گیا ہے اور اس شک میں صوبوں کے درمیان معاہدوں کی خلاف ورزی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

اگر ان سب کا ازالہ ہوجائے اور خاص طور سے معاہدوں کی پاس داری کو شعار بنالیا جائے تو بہت سارے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ راقم نے بھی صوبوں کے خدشات کو کسی حد تک سمجھانے کی کوشش کی ہے اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ ان معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کسی مثبت حل کی جانب بڑھنے کے عمل پر پیش رفت اختیار کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).