ریاستی اصول


وطن عزیز میں اگر آپ نے اپنے نام کا سکہ رائج کرنا ہے تو اپنے آپ کو کسی شدت پسند یا پھر مذہبی تنظیم کا کارندہ بننا ہوگا، پھر آپ جسے چاہے مرضی گالی دیں، جسی چاہے مرضی دین کا سرٹیفکیٹ دیں، جسے مرضی کافر قرار دیں، کسی کی چوک پر چھترول کریں، اور تو اور آپ کو قتل کرنے کی بھی اجازت ہے، آپ سے ریاست یا ریاستی ادارے کچھ نہیں پوچھیں گے، آپ پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوگا، اگر آپ نے زیادہ درندگی کا مظاہرہ کیا تو ہوسکتا ہے آپ کا کسی نیشنل چینل پر پرائم ٹائم میں انٹرویو نشر ہو؟ اس کی جسٹیفکیشن یہ ہوگی کہ یہ تو اپنے بگڑے بچے ہیں، آج نہیں تو کل سیدھے راستے پر آجائیں گے۔

یہ بات ایک بار پھر اس دھرنے میں ثابت ہوچکی۔

اس بار پھر دھرنا ہوا، جلاؤ گھیراؤ ہوا، کم از کم ایک انسان کی زندگی چلی گئی، سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش ہوئیں، درجنوں دکانیں جلائی گئیں اور انہیں لوٹ لیا گیا اور تو اور ایک معصوم پھل بیچنے والے بچے کی ریڑھی کو لوٹا گیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں پانچویں کلاس کا بچہ ایک گدھا ریڑھی پر پھل بیچنے جارہا تھا جسے ایمان پسندوں نے لوٹ لیا اور معصوم بچہ روتے ہوئے گھر پہنچا تھا، جب غریب باپ نے پوچھا بیٹا کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ پھل لوٹ لئے گئے، وہ غریب پھل فروش بچہ جو اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے جو صبح سویرے اُٹھ کر سبزی منڈی جاتا ہے، پھل خریدکر گھر میں رکھ لیتا ہے، پھر تعلیم کے حصول کے لئے سکول جاتا ہے، سکول سے واپسی پر ریڑھی پر پھل بیچتا ہے اور اپنے غریب والد کا ہاتھ بٹاتا ہے، اس پر کیا گزری ہوگی؟ کسی کے پاس جواب نہیں۔

کئی ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئیں جس میں کسی کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو ڈنڈوں سے توڑا گیا اور پھر اسے نظر آتش کردیا گیا، مالک بے چارا اس ہستی کے واسطے دیتا رہ گیا جس ہستی کے پیار میں یہ سب ہوتا رہا، لیکن کسی کی ایک نہیں سنی گئی۔

اس بار ملک کے چیف ایگزیکٹو نے قوم سے خطاب کیا، دھرنہ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو وارننگ دی کہ اب ایسا نہیں چلے گا، قانون توڑنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، اور تو اور ایک حکومتی وزیر نے ایٹم بم کی دھمکی دے ڈالی، میڈیا اور سوشل میڈیا پر ملک کے چیف ایگزیکٹو کی تقریر کی بہت دھوم مچی، تمام مکتبہ فکر، تمام سیاسی جماعتوں، اتحادی ہو یا مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے اختلافات کو بھلا کر اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو، دو دن بعد حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایک معاہدہ ہوا اس معاہدے کے بعد دھرنا ختم ہوگیا، دنگے فساد کرنے والے خوشی خوشی گھر چلے گئے جس کا جو نقصان ہوا وہ آنسو بہاتا رہ گیا۔

اس صورت حال میں وہ لوگ جو یہ سب کچھ کررہے تھے ( پہلے ایسے دنگا فساد کرنے والے منہ چھپاتے تھے کہ کہیں پہچان میں نہ آجائیں ) اب دندناتے ہوئے اپنی ویڈیو بناتے رہے کیونکہ انہیں سو فیصد یقین تھا کہ ان کے ساتھ ریاست سختی سے نہیں بلکہ منت ترلے کرکے منائے گی اور پھر بعد میں انہیں گھر جانے کا معاوضہ بھی دیا جائے گا، کہا جائے گا آپ تو اپنے ہو اور ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

وطن عزیز میں اگر آپ نے پرامن احتجاج کیا جو آپ کا جمہوری حق ہے آپ پر کیسز ہوں گے، آپ کو جیل بھی جانا ہوگا، اسی طرح مملکت خداداد پاکستان میں سیاست دان کو ٹارگٹ کرنا سب سے آسان کام ہے، سیاست دان کو سکیورٹی رسک قرار دے کر ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے، سیاست دان کو عدالت اور اداروں کی توہین کے سبب جیل اور سزائیں ہوتی ہیں، ہماری ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سب سے سوفٹ ٹارگٹ بھی سیاست دان ہیں، اس کے علاوہ اگر آپ عام پاکستانی شہری ہیں اور اگر آپ نے اپنے ملک کے سکیورٹی اداروں کے بارے سوال پوچھا تو بنا کسی دیر آپ گم کردیئے جائیں گے، آپ کی شنوائی نہیں ہوگی، پھر آپ کے لواحقین کورٹ کچہریوں کے چکر لگاتے رہیں گے اور اگر آپ کا خاندان کچھ تگڑا ہے تو گمشدہ افراد کی لسٹ کو اپ گریڈ کرکے آپ کا نام اس لسٹ میں شامل کردیا جائے گا، پھر ساری زندگی آپ کا خاندان آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاموش ہوجائے گا۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch