ملا گردی کے سامنے بے بس ریاست


آسیہ بی بی کی بریت کے بعد ہونے والے دھرنے اور ہنگامے حکومت وقت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اختتام پذیر ہو چکے۔ ان دھرنوں کے دوران کی گئی تقاریر کا نشانہ حکومت، ملک کی عدلیہ اور پاک فوج کی قیادت رہی۔ ہنگاموں کے دوران راہ چلتے لوگوں کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور پبلک املاک پر بے دریغ حملے کیے گئے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ جس معاہدے کے تحت یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے اور جو عوام الناس کو دکھایا گیا اس کی دو شقیں ہیں کہ اگر ان مظاہروں کے دوران اگر کسی تحریکی کی ”شہادت“ ہوئی ہو تو اس کی فوری تحقیق کروائی جائے گی اور وہ تمام لوگ جنہیں ان ہنگاموں کے دوران گرفتار کیا گیا انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد کئی مبصرین نے ارشاد فرمایا کہ یہ اچھی بات ہے کہ معاملہ کسی ہلاکت کے بغیر ختم ہو گیا۔ میرے خیال میں تو ہلاکتیں ہوئیں اور وہ ہیں ریاست کے قانونی اختیار اور ریاست کے اخلاقی جواز کی ہلاکتیں۔

کسی بھی ریاست کے بنیادی فرائض میں اپنے شہریوں کی جان اور املاک کی حفاظت کی ضمانت اور اسے نقصان پہنچانے والے عناصر کو سزا دینا شامل ہے۔ معاہدے میں شامل متذکرہ بالا شقیں ریاست کی ان فرائض کی انجام دہی میں شکست کا اعتراف ہے۔ کسی بھی آزاد اور خود مختار ریاست میں کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جا سکتا جس میں یہ شق شامل ہو کہ توڑ پھوڑ کرتے ہوئے گرفتار شدگان کو بلا تحقیق و مقدمہ چھوڑ دیا جائے گا۔ ریاست کو تو ان لوگوں کو اشتعال انگیزی کے جرم میں گرفتار کرنا چاہیے جو عوام کو تین ججوں کے قتل پر اکسا رہے تھے اور خواہش کر رہے تھے کہ وزیر اعظم کو ان کے خاندان میں سے کوئی قتل کر دے۔

جدید ریاست کے تصور میں یہ اصول شامل ہے کہ تشدد کی اجارہ داری صرف ریاست کے پاس ہے اور ملک کا کوئی غیر سرکاری گروہ، جماعت یا طبقہ نہ تشدد کر سکتا ہے اور نہ لوگوں کو تشدد پر اکسا سکتا ہے۔ خون بہنا کوئی قابل دید نظارہ نہیں اور اس سے اجتناب ہی بہتر ہے لیکن یہ بھی ایک ضروری امر ہے کہ ریاست کسی پر تشدد گروہ کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے گریزنہ کرے صرف اس خوف سے کہ خون بہہ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں خون بہنے کی ذمہ داری ریاست پر نہیں بلکہ اس گروہ پر عائد ہوتی ہے جو ریاست یا اس کے شہریوں سے متحارب ہو۔ طاقت کے مقابلے میں طاقت کا استعمال ریاست کا صرف حق ہی نہیں بلکہ اپنے شہریوں کے دفاع میں اس کا فرض بھی ہے۔ اب براہ کرم یہ مت سمجھا جائے کہ چونکہ دینی طبقہ ہنگامے کر رہا تھا اس لئے یہ کہا جا رہا ہے۔ اگر بے دین بھی ریاست کی رٹ کو تشدد سے چیلنج کریں تو ان کے ساتھ بھی قوت ہی سے نمٹا جانا چاہیے۔

پاکستانی صحافت کے ایک ستون نے آج ارشاد فرمایا کہ یہ معاملہ احسن طریقے سے حل ہوا اور اب یہ تو ممکن نہیں کہ ریاست اپنے شہریوں پر گولی چلائے۔ اس امر کو نظر انداز بھی کر دیں کہ گولی آخری حربہ ہوتا ہے اور اسے بھی کہ پاکستانی ریاست سمیت کئی ممالک ماضی میں گولی بھی چلا چکے ہیں تب بھی موصوف کی لاعلمی پر افسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ جب کوئی شہری جرم کا ارتکاب کرے یا ریاست سے متحارب ہو تو وہ اسی لحظہ اپنے شہری حقوق کھو دیتا ہے۔ ریاست کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ اس پر فسادیوں کی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری ہے یا ان پر امن شہریوں کے جان و مال کی جو فسادیوں کے نشانے پر ہیں۔ ریاست کمزور کی طاقت بنا کرتی ہے، طاقتور کی یرغمال نہیں۔

تحریک لبیک اس سے پہلے بھی اس طرح کا دھرنا دے چکی ہے اور اس کا اختتام بھی ایسے ہی ایک معاہدے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ تب معاملہ قانون میں ایک حلف نامے کی تبدیلی کا تھا جو پارلیمنٹ نے منظور ہوا اور جسے دھرنے کے بعد واپس لے لیا گیا۔ جمہوری ریاست میں مقننہ عوام کے نمایندوں پر مشتمل ہوتی ہے جسے قانون سازی کرنے کا کل اختیار ہوتا ہے۔ ایک دھرنا دے کر مقننہ سے یہ اختیار واپس چھین لیا جانا ریاست کی ناکامی بھی ہے اور عوام کے مینڈیٹ کی توہین بھی۔

اگر وہ ترمیم غیر قانونی تھی تو اس کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن ایک گروہ کو یہ اجازت کوئی جمہوری ریاست نہیں دے سکتی کہ وہ اشتعال انگیزی کر کے مقننہ کا قانون سازی کا اختیار معطل کر دے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دھرنے کی حمایت اس وقت کی اپوزیشن نے کی جو اب حکومت میں ہے اور اس دفعہ اسی گروہ کے عتاب کا نشانہ ہے۔

پاکستان میں مذہب کے استعمال سے لوگوں کے جذبات بھڑکا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت یہ حربہ آزمانے کی تاریخ رکھتی ہے۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں۔ وہ ادارے جن کے ذمہ قومی دفاع ہے ان کا دامن بھی اس معاملے میں پاک نہیں۔ مذہب کے استعمال سے عفریت تیار کر کے وقتی مقاصد تو حاصل ہو جاتے ہیں لیکن عفریت ساز یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دفعہ عفریت تشکیل پا جائے تو پھر وہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا۔

آپ کسی گروہ کو ختم نبوت کے نعرے پر حکومت کے خلاف متحرک کروا تو سکتے ہیں مگر یہ بھی ممکن ہے کہ وہی گروہ کچھ ماہ بعد کچھ ایسا کہے کہ آپ کو اپنے ایمان کے ثبوت کے لئے محفل میلاد منعقد کروانی پڑ جائے۔ کل اگر نشانہ پاکستانی مقننہ تھی تو آج یہ سپریم کورٹ یا پاک فوج بھی ہو سکتی ہے۔ یہ جنگل کی آگ ہے جسے آپ لگا تو سکتے ہیں مگر اس کا رخ ہوا ہی متعین کرتی ہے جو آپ کے بس میں نہیں۔

آج وفاقی حکومت کا ایک اعلان سامنے آیا کہ پچھلے چند دن کے ہنگاموں کو لے کر مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ یہ مقدمات کن پر قائم کیے جائیں گے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ ان مقدمات کی نوعیت کیا ہو گی۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ جن لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر سوشل میڈیا پر پھیلائیں ان کے خلاف سائبر کرائم کا مقدمہ قائم کیا جائے گا لیکن جنہوں نے وہ تقاریر کیں ان کے ساتھ تو آپ مذاکرات اور معاہدے کرتے رہے۔ ان تقاریر میں عوام سے کھل کر کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں کو جلد از جلد قتل کر دیا جائے۔ انہی تقاریر میں آرمی چیف کے ایمان پر سوال اٹھا کر پاک فوج میں کھلے عام بغاوت کی فرمائش کی گئی۔ کیا ریاست اپنے اداروں کے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیزی کے سامنے آنکھیں موند لے گی؟

ایک برس میں ایک ہی گروہ کے ہاتھوں ریاست کا دو دفعہ مفلوج ہو جانا کوئی معمولی امر نہیں۔ مقننہ، عدلیہ اور افواج پاکستانی ریاست کے اہم ترین ادارے ہیں۔ کسی گروہ کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ان اداروں کے کام میں تشدد کے ذریعے رخنہ اندازی کرے اور لوگوں کو ان کے خلاف اشتعال دلائے۔ پاکستان نے اگر ایک جدید جمہوری ریاست بننا ہے تو مذہبی عفریت سازی بند کرنا ہو گی اور یہ طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی گروہ کسی ریاستی ادارے کے خلاف قوت کا استعمال کرتا ہے تو ریاست اپنے تمام جاہ و جلال کی ساتھ اس قوت سے ٹکرائے گی۔ مستقل حل یہی ہے ورنہ یہ مذاکرات اور معاہدے صرف وقت خریدنے کا حربہ ہیں۔ آنا آپ کو مستقل حل پر ہی ہو گا۔ اب ریاست خود طے کر لے کہ اسے اس مستقل حل کو اپنانے سے پہلے مزید کتنا نقصان کروانا ہے کیونکہ تشدد کے آگے گھٹنے ٹیک دینے سے تشدد میں کمی نہیں، اضافہ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).