سونف بو کے سویا کاٹنا!


دھندھواں نے لاہور شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور یہ تیسرا سال ہے کہ یہ زہریلی دھند پھیلی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس بار کسی کو اس کی فکر نہیں۔ فکر تو شاید مجھے بھی نہ ہوتی، وہ تو بدھ کے روز دس گیارہ بجے کے قریب ایک فون آیا۔ کسی نے بہت پراسرار انداز میں کہا ، ’بچوں کو سکول سے لے آئیں ؟‘

کھڑکی کے باہر دیکھا تو سیاہ دھواں بل کھاتا اٹھ رہا تھا۔ معاملہ سمجھ آ گیا۔ بیس منٹ کا راستہ ساڑھے تین گھنٹے میں کٹا۔ رنگ روڈ نہ ہوتی تو شاید، اس روز راستہ ہی نہ ملتا۔ دھوئیں کے مرغولوں اور برستے پتھروں، اٹھتی لاٹھیوں کے درمیان امی کے گھر پہنچی اور اگلے تین روز وہیں محصور رہی۔ سیاست کے میدان میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ گھر پہ بوڑھی والدہ اور خالہ تھیں جنہوں نے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک کا سب کچا چٹھا دیکھ رکھا تھا۔

ان دونوں عفیفاؤں کو فکر تھی تو یہ کہ اس دھند میں، ان کے بوئے، سونف کے بیج بار آور ہو بھی پائیں گے یا نہیں ؟ یہ بات کہہ کر وہ بہت گھبرائیں کیونکہ ان دونوں کا یہ خیال ہے کہ اگر سونف بوتے ہوئے، کسی سے ذکر کر دیا جائے کہ ہم سونف بو رہے ہیں تو وہ سونف سویا بن جاتی ہے۔ اس بات پہ میں بہت چکرائی۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟دونوں منہ چھپا چھپا کے خوب ہنسیں۔ اس کے بعد وہ ٹیلی ویژن کھول کے بیٹھ گئیں اور کشمیر میں کیے گئے بھارتی فوج کے مظالم دیکھنے اور ہندوستان کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں بہت صدقِ دل سے مانگنے لگیں۔

رات آئی تو ان کو دہرہ دون میں گزارے اپنے بچپن کے دن یاد آ گئے اور وہ ‘میلادِ اکبر’ کی جلد نکال کے اپنی صدری دھنوں میں نعت اور حمد پڑھنے لگیں۔ میلاد کے بعد انہیں پھر سونف کی فکر ہوئی اور اچانک، لیاقت علی کا قتل یاد آ گیا۔ چونکہ ان میں سے ایک اس روز جلسہ گاہ میں موجود تھی اس لیے انہیں نہایت باریک تفاصیل یاد تھیں۔

پھر انہوں نے ایوب خان کو یاد کیا۔ اس کے دور میں دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے لباس اور بالوں کے انداز دہرائے۔ جنرل اعظم نے گوشت کی دکانوں پہ کیسے راتوں رات جالیاں چڑھوائیں اور گھوڑوں کو پاجامے پہنائے۔ اس بات پہ دونوں میں خوب مچیٹا ہوا کہ گھوڑوں کو پاجامے جنرل ضیا نے پہنائے کہ جنرل اعظم نے۔

آخر تھک ہار کے ایک رساول پکانے چل دیں اور دوسرے ملک کی سیاسی صورت حال پہ غور کرنے کو سوشل میڈیا کھنگالنے لگیں۔

وزیرِ اعظم صاحب خطاب کر رہے تھے۔ باورچی خانے والی بڑی بی کو اسی وقت جانے کیوں سقوطِ ڈھاکہ یاد آ گیا اور وہ رساول کا بھاپ اڑاتا ڈونگا سامنے رکھ کے شہدائے، جنگِ دسمبر کی نیاز دینے لگیں۔

آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف احتجاج

بوڑھا بچہ برابر ہوتا ہے، تھوڑی ہی دیر میں سب بھول کے ضیا الحق صاحب کے دورِ زریں کو یاد کرنے لگیں۔ یہاں دونوں میں شدید اختلاف تھا، ایک جنرل ضیا کی حامی تھیں اور دوسری جنرل مشرف کی۔ خوب گرما گرم بحث ہوئی۔

حالات اس دوران کئی کروٹیں بدل چکے تھے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ ریاست سے ٹکرانے والے کو سبق سکھا دیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم صاحب، شاید چین جا چکے تھے اور شاید کیلنڈر پہ تاریخ بھی بدل چکی تھی۔

باہر چونکہ دھند تھی اس لیے مجھے کچھ معلوم نہ ہوا کہ کون سا پہر ہے۔ صفائی کرنے والے دونوں مسیحی میاں بیوی جن کا خاندان پاکستان بننے سے بھی پہلے سے ان ہی علاقوں میں کام کرتا تھا، خاموشی سے اپنا کام نمٹا رہے تھے۔ مسیحی ہونے سے پہلے شاید وہ دلت ہندو تھے اور اس سے پہلے شاید دراوڑ۔

صفائی کے بعد انہوں نے وہیں ان دونوں کے پاس بیٹھ کے 71 کی جنگ کے ’شہدا‘ کی نیاز کے میٹھے چاول کھائے، ان دونوں سے دہرو دون کے واقعات سنے، ان کی آواز میں آواز ملا کے ایک نعت بھی پڑھی، ‘سانپ خود آستینوں میں پالے، ہم گناہگار ہیں کملی والے’، چائے پی اور مزے سے سائیکل پہ سوار ہو کے چاروں طرف چھائی دھند میں یوحنا آباد کو نکل گئے۔

باہر یہ جلتے ٹائروں کا دھواں ہے یا دھندھواں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ سنا تو یہ ہی تھا کہ جو بوؤگے، وہی کاٹو گے، سونف بو کے سویا کاٹنے کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آپ سمجھ جائیں تو باقیوں کو بھی سمجھایے گا۔ اس قوم کو سمجھ بوجھ کی بہت ضرورت ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).