مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، جماعت اسلامی اور حسین مودودی


”جب ہمارے والد صاحب نے جماعت اسلامی بنانے کا ارادہ باندھا تو مولانا ابو الکلام آزاد نے اس کا مینی فیسٹو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔  چنانچہ مولانا عبدالسلام نیازی کے ترکمان گیٹ دلی والے حجرے میں انہوں نے فراہم کردہ مینی فیسٹو کا بغور مطالعہ کیا اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ ‘ ’ابو الاعلیٰ!  اخلاص نیت کے باوجود اس مینی فیسٹو کی روشنی میں جو جماعت معرض وجود میں آئے گی وہ ایک فاشسٹ جماعت ہوگی۔ مذہبی جرائم پیشہ افراد سانپ بچھو بن کر تمہارے ارد گرد اکٹھے ہو جائیں گے اور ان کی اصلاح ممکن نہ ہوگی“۔

یہ اقتباس کالم نگار نے ”آفتاب علم و عرفان“ سے نقل کیا ہے۔  یہ مولانا مودودی کے امریکہ میں مقیم بیٹے حسین فاروق مودودی کی مولانا کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب کا نام ہے۔ آج اس واقعہ سے امام الہند کی بے پایاں فہم و فراست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کالم نگار کی رائے میں مصنف نے مینی فیسٹو کا لفظ سہواً دستور کی جگہ استعمال کیا ہے۔  آپ اس کتاب کو مولانا کے پسماندگان کی طرف سے مولانا کے بعد آنے والی جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف ایک فرد جرم بھی کہہ سکتے ہیں۔

مصنف کے جماعت اسلامی کی قیادت سے کچھ مالی تنازعات ہیں، جن کا کتاب میں بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔  پاکستانی کرنسی کی قیمت خاصی گر جانے کے باعث یہ مالی معاملات پڑھنے والوں کواب کچھ غیر اہم سے لگتے ہیں۔  پھر بھی جماعت اسلامی اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لئے یہ معاملات بہت اہم ہیں۔  مولانا نے یکم نومبر 1972ء کو دل برداشتہ ہو کر اپنی جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کتاب کے مصنف کے مطابق اس کے بعد جماعت کے ذمہ داران نے ان کو سخت ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا۔

مولانا 22 ستمبر 1979ء کو امریکہ کے ایک ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوئے۔  کتاب کے مصنف نے جماعت اسلامی کی قیادت کے بارے میں بہت سے دلخراش واقعات لکھے ہیں۔  کالم کا اختصار انہیں پوری تفصیل سے لکھنے کا متحمل نہیں۔  بہر حال جماعت کے ایک اہم لیڈر کا پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں اسلحہ کے زور پر کتاب سامنے رکھ کر نقل کرنا، نوجوان قیادت جنہیں مصنف قبضہ گروپ لکھتے ہیں، کی جماعت کے نام پر لوٹ کھسوٹ، دھونس سے لوگوں کے جھگڑوں والے مکانوں اور زمینوں پر قبضے، سرکار سے اپنے ملکیتی اسکولوں کے نام پر قیمتی زمینیں اور پلاٹ حاصل کرنا طبعیت پر بہت گراں گزرتا ہے۔

مصنف نے ان غیر اخلاقی کاموں میں ملوث تمام جماعتی لوگوں کے نام بڑی تفصیل سے لکھے ہیں۔ یہ نام اس کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی تعلیمی میدان میں قوم کی بہت خدمت کر سکتی تھی لیکن شاید کچھ جماعتی عہدیداروں نے اپنی ذاتی اغراض کی خاطر جماعت کوادھر کا رخ ہی نہیں کرنے دیا۔ یہ بھی ہمارا ایک قومی المیہ ہے۔  مصنف نے وزیر اعظم نواز شریف سے ان کی پہلی وزارت عظمیٰ کے زمانہ میں جماعت اسلامی کی اول درجے کی قیادت پر کرنسی نوٹوں سے بھرے ہوئے بڑے سائز کے بریف کیس لینے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے بڑے ثقہ قسم کے گواہوں کا نام پیشکیے  ہیں۔  بہر حال مصنف نے اپنا جماعت اسلامی کے بار ے میں ”نوحہ“ یوں مکمل کیا ہے : ”میرے نزدیک جماعت اسلامی کی سیاست، انتخابات میں شرکت اور دوسری سر گرمیاں ابھی تک صرف اس لئے اچھے نتائج اور اثرات معاشرہ میں پیدا نہیں کر رہی ہیں کہ بیشتر اہم ذمہ داران جماعت فتنہ مال میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

بدقسمتی سے اب جماعت کے حلقوں میں وہ لوگ اہم ہیں جو اپنی سیاسی حیثیت کو مالی مفادات کے حصول میں صرف کرنے کا طریقہ سیکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ۔  جماعت اسلامی اب سیاست کے میدان میں دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے کچھ زیادہ مختلف اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا مظاہرہ کرنے کے لائق نہیں رہی“۔  مصنف نے ایک مقام پر اپنے والد محترم کی صفائی یوں پیش کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں ”ممکن ہے ہمارے والد نے اپنے ساتھیوں کے چناؤ میں غلط اندازے لگا کر ایسے لوگوں کو بھی اپنے دینی مشن میں اپنا ہمنوا بنا لیا ہو، جو اس لائق نہ تھے۔

مگر اندازے کی غلطی کو نیت کی خرابی تو قطعاً نہیں گردانا جا سکتا“۔ کالم نگار اس سوچ میں غلطاں ہے کہ اللہ نہ کرے کہ مستقبل قریب میں عمران خان کے بیٹوں کو بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے اور وہ بھی ناکامی کو ساتھیوں کے غلط انتخاب پرتھوپتے پھریں۔ ویسے ہمارے ملکی حالات کچھ ایسے ہی امکانات سامنے لا رہے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کی حکومت میں جماعت اسلامی نے وزارتیں لی تھیں۔  مصنف نے وزارتیں حاصل کرنے والے ان جماعتی وزیروں میں صرف پروفیسر غفور کی مالی پاکیزگی کا ذکر کیا ہے۔ مصنف جماعت اسلامی کی قیادت کوافغان جنگ کی سرخیل بن کر بے پناہ مالی منفعت میں بھی حصہ دار قرار دیتے ہیں۔ خیر، جماعت اسلامی کو چھوڑیں، مولانا مودودی کی عظیم شخصیت اپنے گھر کی گواہی کی روشنی میں کچھ اور بھی نکھر کر سامنے آئی ہے۔

 200 کے قریب کتابوں کے مصنف مولانا مودودی کا یہ معمول بتایا گیا ہے کہ مولانا کو لکھنا پڑھنا عمر بھر عزیز رہا۔ رات عشاء کی نماز کے بعد وہ کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتے۔  پھر اپنے دفتر میں میز پر بیٹھ جاتے۔ ساری رات لکھنے پڑھنے کا کام کرتے۔  صبح تہجد کے لئے کام سے اٹھتے اور فجر پڑھ کر سو جاتے۔ یہ ان کا چالیس برس کا معمول رہا۔ اب مولانا کی اصول پسندی اور بے نیازی کے ایک دو اور واقعات بھی۔

مولانا کو میکلیگن روڈ یونیورسٹی گراؤنڈ کے سامنے ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد کے عوض سوہن لعل کالج الاٹ ہوا تھا۔ یہ پراپرٹی ایک بڑے کالج اور تین کوٹھیوں پر مشتمل تھی۔  ایک دن مدرسة البنات والے اسی پراپرٹی کا ایک اور الاٹمنٹ لیٹر لے کر آگئے۔ انہوں نے مولانا کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز دی کہ صرف کالج کی بلڈنگ ہمیں دے دیں اور تینوں کوٹھیاں آپ رکھ لیں۔ لیکن مولانا اس الاٹمنٹ پر الاٹمنٹ سے اتنے بدمزہ ہوئے کہ وہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے۔

اپنے آخری دنوں میں جب مولانا علاج کے لئے امریکہ پہنچے ہوئے تھے توانہوں نے وہاں سے اپنے گھر خط لکھا کہ ”میں نئے سال کا ریڈیو لائسنس تجدید کے لئے دینا بھول گیا ہوں۔  نئے سال کی فیس داخل کر کے رسید لے لیں اور ڈاکخانے والوں سے کہیں کہ میں امریکہ سے واپس آنے کے بعد پچھلے سال کی رسید انہیں دے دوں گا“۔

وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کے جن کو آنکھیں ترستیاں ہیں

کتاب میں مولانا کی بہت سے تصویریں شامل ہیں۔ لیکن جناب مجیب الرحمان شامی کی لفظوں میں کھینچی ہوئی تصویر کا جواب نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).