ناول ٹوٹی ہوئی دیوار ۔۔ساتویں قسط


وقت : دس بجے رات
تاریخ:7 نومبر ، 2015
مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر 5 ۔کراچی

بختاور نے گلی والا دروازہ کھولا تو وہاں ادریس نہیں تھا بلکہ مولوی سلیم اللہ چار پانچ داڑھی والے لوگوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
بختاور نے فوراٌ ہی دوپٹہ سر پر لے لیا اور دروازے کی آڑ میں ہوگئی، ”اسلام علیکم جی، ادریس تو گھر پر نہیں ہیں وہ تو صبح سے مسجد گئے ہوئے ہیں پھر لوٹے نہیں” بختاور نے د بے ہوئے لہجے سے کہا
”جی جی بہن جی ہمیں پتہ ہے صبح ہی ہماری ان سے ملاقات ہوئی تھی ، آپ کو ابھی ہم یہی بتانے حاضر ہوئے تھے ۔ کیا اندر آسکتے ہیں ؟”مولوی سلیم اللہ نے مو دبانہ لہجے میں گلا کھنکار کر کہا تو بختاور نے جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی دروازہ چھوڑ کر کہا ،’ ‘جی جی مولوی صاحب اندر آجائیں ” بختاور دروازے کے آ ڑ ہوگئی اور مولوی صاحب دو لوگوں کے ساتھ گھر میں آگئے اور باقی لوگوں کو باہر انتظار کرنے کا کہہ کر دالان میں پڑی بید کی کر سیوں پر بیٹھ گئے جبکہ بختاور رسوئی کی طرف چلے گئی اور ایک طرف منہ پر روپٹہ رکھ کر دروازے کی آڑ میں پھر سے کھڑی ہوگئی، ”مولوی صاحب سب خیریت تو ہیں نا ؟” بختاور نے ادریس کا نام لیے بغیر تشویشانہ انداز میں پوچھا۔
”بات دراصل یہ ہے بہن جی کہ کل ایک ملعون نے شانِ رسول میں گستاخی کی تھی جس پر محلے کے کچھ معزز لوگ جذباتی ہوگئے تھے اور اُس کم بخت کو مارا پیٹا تھا جس پر وہ ملعون جہنم رسید ہوگیا تھا، اب پولیس ضابطے کی کاروائی کر رہی ہے ۔ ہمارے ادریس بھائی کا نام بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جن کے خلاف پر چہ درج ہوا ہے ۔’ ‘ مولوی صاحب نے تمہید باندھی اور بختاور کی طرف منہ کیے بغیر ہی زمین کو تکتے ہوئے کہنے لگے،”ادریس بھائی تھانے میں ہیں مگر آپ فکر نہ کر یں ہم انہیں چھڑا لیں گے، بس صرف ضابطے کی کارروائی ہے ، شائد ایک یا دو دن گھر نہ آئیں تو بس آپ پر یشان نہ ہوں۔” مولوی صاحب اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے جاتے تھے، ”ہم یہی سوچ کر ہم آپ کو بتانے کے لیے آئے تھے۔۔۔ پولیس نے نو دس آدمی اُٹھائے ہیں اکیلے ادریس بھائی نہیں ہیں، مگر مسجد اور ہمارا مدرسہ انشا اللہ و تعالی سب کے پیچھے ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے چاہا تو ایک شخص بھی اندرنہیں رہے گا سب باعزت و تکریم باہر آجائیں گے۔۔۔ جزاک اللہ ہمارے ادریس بھائی اور ساتھی، یہ سب لوگ ناموس رسول کے خاطر بہت نیک کام کے لیے آگے آئے ہیں ۔۔۔ محترم مولوی شمس الحق نے جو ہماری مسجد کے بڑے کرم فرما ہیں خاص طور پر مجھے تاکید کر کے آپ کی طرف یہ سندیسہ بھیجا ہے کہ آپ کو ادریس بھائی کے لیے قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہم ادریس بھائی اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کا پورا ساتھ دیں گے اور اس مشکل گھڑی میں ان کا پورا پورا خیال ر کھیں گے ۔”

”جی مگر وہ ادریس کو ماریں گے تو نہیں مولوی صاحب؟’ ‘ بختاور نے پریشان ہو کر کہا ، ”’سنا ہے تھانے میں پولیس والے تو بہت ظلم کرتے ہیں۔’ ‘

” ارے نہیں بہن جی ادریس بھائی کوئی اخلاقی جرم میں نہیں پکڑے گئے ہیں ۔ ” مولوی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ نمودار ہوئی، ” اُ نہوں نے چوری چکاری یا کسی کا مال نہیں لوٹا ہے اور نہ ہی کسی کو دھوکہ دیا ہے ۔ بھئی گستاخان رسول کو انجام تک پہنچانا کوئی گناہ نہیں ہے ، قران میں بھی رسول اکرم کی عزت و ناموس اور آبرو کے خیال رکھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے اور اس کی حفاظت کو واجب قرار دیا ہے ۔ بھائی ادریس نے تو بہت نیک کام کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر ایک ملعون کو واصل جہنم کردیا۔ بہن جی ایک مسلمان کے نزدیک اللہ کے رسول سے محبت عین عبادت ہے وہ سب کچھ بر داشت کر سکتا ہے لیکن اس کے رسول کی شان اقدس میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ایسا مسلمان تو مسلمان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہے بہن، جو آپ نبی کریم صلم یا ان کے صحابہ اکرام کی توہین یا بے ادبی سن کر بے غیرتوں کی طرح برداشت کر لے۔ قران نے گستاخان رسول کو ہمیشہ سخت لہجے میں جواب دینے کا حکم فرمایا ہے، اُن پر لعنتیں برسائی ہیں اور تاریخ گواہ ہے مسلمان خلفا اور فقہا سبھی کا یہ ہمیشہ موقف رہا ہے کہ جب بھی نعوذ باللہ کسی نے حضور سرورِ کائنات کی شان میں گستاخی کی تو اُس کے قتل کا حکم دیا گیا۔۔۔ بہن جی آپ بالکل بھی پر یشان نہ ہوں، بھائی ادریس دو ایک دن میں بخیریت باہر آجائیں گے۔ اُنہیں تھانے میں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، وہ تو مجاہد ہیں اللہ کے غازی ہیں۔ دنیاوی قانون کی دفعات کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں جب توہین مذہب کا کوئی بھی بد بخت واقعہ ہوتا ہے ۔ آپ فکر نہ کریں بس دو ایک دن کے صبر کی بات ہے۔ کوئی ضرورت ہو کسی بھی قسم کی، پیسے آٹا چاول دال تو براہ کرم بلا جھجک فرما دیجیے گا ۔ محلے کے کسی بھی بچے کے ذریعے مجھے پیغام پہنچا دیجئے گا انشاللہ فی الفور مسجد کی طرف سے بند وبست ہوجائے گا ۔’ ‘
”شکریہ مولوی صاحب’ ‘ بختاور نے سکھ کا سانس لیا ، ” مولوی صاحب آپ ٹھیریں چائے پی کر جائے گا ۔۔۔ ” بختاور کو اچانک خیال آیا
”ارے نہیں بہن ابھی ہمیں کچھ اور بھائیوں کے گھر بھی جانا ہے ۔ ہماری اور بہنیں بھی آپ کی طرح پر یشان ہیں۔ اللہ تبارک تعالی کی امت پر کیا بُرا وقت آگیا ہے کہ لوگ نیک کاموں سے بھی پر یشان ہوتے ہیں ،اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے، جزاک اللہ خیر ” پھر مولوی صاحب اور اُن کے اکابر اُٹھ کھڑے ہوئے ، اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ اور بختاور نے دروازہ کی کنڈی اندر سے لگالی۔ اچانک اُسے خیال آیا کہ اُس نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ ادریس کس تھانے میں ہے اور وہ اُس سے کس طرح ملاقات کرسکتی ہے۔ اُس نے پھر سے دروازے کی کنڈی کھولی اور باہر جھانک کر ادھراُدھر دیکھا مگر گلی میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے اُسے کچھ نظر نہ آیا ۔ البتہ ایک دو کتے گلی میں چہلیں کرتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ بختاور نے سوچا صبح رب نواز سے فون کر کے معلوم کروالونگی۔۔ ابھی وہ دروازہ پر کنڈی چڑھا ہی رہی تھی کہ اچانک اندر کمرے سے عثمان کے رونے کی آواز آئی اور بختاور دالان سے ہوتی ہوئی کمرے میں عثمان کے پاس آگئی۔ عثمان شائد پھر خواب میں ڈر گیا تھا اور اب ششدر آنکھوں سے دیواروں کو تک رہا تھا۔ اُس نے جونہی ماں کو قریب آتا ہوا محسوس کیا تو خالی خالی آنکھوں سے کچھ دیر تک اُسے تکتا رہا اور پھر ایک دم سے آ آ کی آوازیں نکالنے لگا جیسے اُسے الٹی آ رہی ہو۔۔بستر کی چادر پہلے ہی عثما ن کی الٹیوں کی بساند میں بھری ہوئی تھی۔ صبح سے یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا بس مولوی صاحب کے آنے سے قبل ہی اُس کی آنکھ لگی تھی ۔ ہر دو منٹ میں اُس کی آنکھ لگتی تھی مگر پھر متلاہٹ اور الٹیوں کی وجہ سے نیند ٹوٹ جاتی تھی ۔ صبح ڈاکٹر صاحب نے جو دوا دی تھی وہ بھی ساری الٹ دی تھی مجال ہے جو ایک قطرہ بھی دوا کا پیٹ میں اُترا ہو ۔ بختاور نے بھی جان بوجھ کر بستر کی چادر نہیں بدلی تھی کہ کہیں پھر دھلی ہوئی چادر خراب نہ کر دے۔ اُس نے عثمان کو اپنے قریب کر لیا اور اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔ ”کیا ہوا میرا بچہ، ڈر گیا ؟ الٹی ہورہی ہے ؟ ٹھیرمیں کچھ لاتی ہوں ۔ ” مگر اس سے پہلے کہ بختاور کوئی میلا کپڑا یا برتن لاتی عثمان نے حلق سے زور سی آواز نکالی اور پھر جھٹکے سے پیلے رنگ کی الٹی کر دی ۔ اُس کے معدے میں شائد کچھ بھی نہیں تھا اسی لیے الٹی زیادہ بڑی نہیں تھی مگر پیٹ کے کھنچنے کی وجہ سے وہ درد سے دوہرا ہوگیا تھا۔ بختاور نے پھر سے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اُس پر پھونکنے لگی مگر عثمان بیمار آنکھوں سے اُسے تکتا ہوا دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ کربستر پر ترچھا ہوکو لیٹ گیا اور پھر درد کے مارے اماں اماں بسورنے لگا۔
”ٹھیک ہوجائے گا میرا بچہ۔ ” بختاور نے اُس کا منہ اُسی میلی چادر سے صاف کیا اور عثمان کو آہستہ سے اپنی گود میں بھینچ لیا،” ٹھیک ہو جائے گا میرا بچہ۔۔ابھی اپنے لال کو الٹی کی دوا دے دیتی ہوں، دودھ لاؤں تیرے لیے ؟ ” وہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی،
”نہیں اماں میں کچھ نہیں کھاؤ ں گا مجھے متلی آتی ہے ۔۔۔ ‘ ‘ عثمان نے بسورتے ہوئے کہا
”ابھی تیرا ابا آ جائے گا، تو ان سے کہوں گی میرے بیٹے کے لیے آم لے آئے ۔۔ تجھے آم اچھے لگتے ہیں نا بیٹا ؟”
”نہیں اماں نہیں ۔۔۔ ” عثمان اچانک سے چیخنے لگا ، ” ابا کو نہیں بلانا ،ابا سے مجھے ڈر لگتا ہے۔۔
” نہیں اماں نہیں ،ابا کو نہیں بلانا ۔۔”
” اماں اماں ابا کو نہیں بلانا اماں۔۔۔’ ‘
عثمان پھر چیخنے لگا اور پھر بڑی سی ابکائی کے بعد چھوٹی سی ایک اور الٹی کر دی۔

ٹوٹی ہوی دیوار ۔آٹھویں قسط اگلے  ہفتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).