احمد جاوید روشنی کا ایک مینار ہیں


احمد جاوید صاحب کی شخصیت اور علمی قامت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کیونکہ عام طور پر لوگ سادہ زبان میں اخلاقی درس سننے یا مخصوص نظریاتی تناظر میں دوسروں کا ٹھٹھہ اڑا کر اپنی ذہنی پستی سے نکلنے کی تدبیر کر رہے ہوتے ہیں۔ احمد جاوید شاعر ہیں، فلسفہ کے استاد ہیں ( بہت لوگ ان سے کسب فیض کرتے ہیں ) اور بہت ہی عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔ علم، عمل، فکر، نظریہ اور جمالیات ان کے ہاں گندھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان آج تک اشیا کو نام دیتا آ یا ہے لیکن اس سماج ( سرمایہ دارانہ) نے انسان سے یہ اہلیت بھی چھین لی۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی چالاکی یہ ہے کہ اس نے استحصال پر مبنی معاشی نظام کو پرکشش بنا دیا اور یوں کہ انسان اپنے دکھوں کا مداوا اسی نظام میں ڈھونڈ رہا ہے۔ فرماتے ہیں کارل مارکس نے انسانی معاشرے میں بیماری کی تشخیص کر دی اور تضادات سے ماورا ایسی تہذیب کا خاکہ کھینچا ہے جہاں انسان، خدا اور دوسرے انسانوں سے غرض کے بغیر تعلق استوار کرے گا، جہاں انسان اشیا سے بڑا ہو گا۔ احمد جاوید کے ہاں تہذیب کا جو تصور ہے وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر قائم ایسے معاشرہ ہے جہاں انسان جسمانی لذتوں کی رغبت کا پیچھا کرتے ہوئے مر جانے کی بجائے اپنی ذہنی صلاحیتوں اور اعلیٰ انسانی وصف کو بروئے کار لاتے ہوئے کا نات کے اسرار و رموز دریافت کرے۔

ان کے لیے شاعری انسان کے ابدی مسا ل کو فنکارانہ انداز یعنی الفاظ کو نئے معانی دینے، غیر روایتی انداز میں برتنے اور ایبسرڈ مگر معنی خیز تراکیب استعمال کرنے کا نام ہے۔ خود ان کی اپنی نظمیں بہت دلچسپ موضوعات رکھتی ہیں مثلاً ”مجذوب کی بڑھ“، ”مخبوط الحواس آدمی کا خطبہ“ وغیرہ۔ کانٹ، ہیگل، مارکس، نٹشے، مشل فوکو، دریدا اور ایرک فرام ان کے پسندیدہ فلسفی ہیں۔ حافظ، بیدل، غالب، میر، داغ، نیرودا، پال ویلری اور مایا کووسکی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔

یہ سب میں نے ان سے پڑھے ہیں اور ظاہر ہے ان کے مطالعہ کی وسعت اس سے بہت زیادہ ہے۔ جو شخص پڑھتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، سمجھنا چاہتا ہے وہ ان کی محفل میں بیٹھتا ہے اور بہت ہی عمدہ بات یہ ہے کہ ان کے احباب میں کسی کو دوسرے کے سماجی پس منظر سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیونکہ آپ جب اس محفل سے اٹھتے ہیں تو خود کو ایک بڑا اور بھرا ہوا آدمی تصور کیے ہوئے ہوتے ہیں جو زندگی کی آلائشوں سے بلند ہوتا ہے۔ احمد صاحب فرماتے ہیں دوسروں کو عزت دو اور یہ کہ اگر کسی سے مباحثہ کرو تو اس میں مخالف کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ آپ اس کے خیرخواہ ہیں۔ ہرگز اسے یہ گماں نہیں گزرنا چاہیے کہ آپ اسے علمی مرتبے یا دلائل میں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ انسان اپنے افکار سے نہیں معاملات سے پہچانا جاتا ہے اس لیے دوسروں سے معاملہ کرتے ہوئے ( یعنی کوئی لین دین کرتے ہوئے ) دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھو۔ صرف میں نہیں بہت سے لوگ جناب احمد جاوید کو ان تمام اوصاف کا عملی نمونہ سمجھتے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں اور ان کے گماشتوں کو، منصوبہ بند معیشت کے ہرچارکوں کو، مادے کی خیال پر فوقیت کے راگ کو، عینیت پرستوں کے استدلال کو، جھوٹے سچے انقلابیوں کی روش کو، وجودیت پرستوں کے ناقص ارادوں کو غرضیکہ کسی ایسی تھیوری کو اور کسی ایسے نظام کو اہمیت نہیں دیتے جس کا مقصود اجتماعی خیر نہیں یا اجتماعی فلاح نہیں۔

اب تک میں نے جو کچھ کہا اس سے احمد جاوید صاحب ایک بزرگ کے طور پر سامنے آ تے ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کی حس مزاح، حس جمال اور دوسروں کے لیے بے پایاں محبت اپنا ہی رنگ رکھتی ہیں۔ مجھے اپنے کچھ دوستوں سمیت ان سے علم حاصل کرنے کا موقع میسر رہا اور انہوں نے سوچ کے کئی در وا کر دیے۔ احساس کی کئی تہیں اور نظریات کی کئی گرہیں کھول دیں۔ جمالیات کے کئی دریچے ان کی وساطت سے وا ہوئے۔ خوبی یہ ہے کہ آپ سوال اٹھاتے جائی ں اور وہ محفل میں موجود ہر شخص کی رائے سنیں گے اور آ خر میں اپنی رائے دیں گے لیکن کچھ اس طرح کہ ہر شخص اپنی تفیہم بھی بڑھاتا چلا جائے گا اور فکر کی غلطی کا بھی خود ہی ادراک کر لے گا۔

ظاہر ہے فلسفہ کے موضوعات کوئی پان سگریٹ کے نشہ کی طرح تو ہوتے نہیں کہ ادھر بات سنیں اور ادھر ہیگل یا مارکس کو پچھاڑ دیں۔ ابلاغ کی آسانی کے نام پر جو سطحیت یہاں پروان چڑھ رہی ہے اس سے فکری موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کو بچانابہت ضروری ہے ورنہ شہر میں ہر رند خرابات ولی بن بیٹھے گا اور سب کی پین دیاں سریاں گننے لگے لگا۔ بھئی اگر آپ کی پیاس دریا پینے کی ہے تو اتنا بڑا معدہ بھی رکھیں۔ دریا پینے کی پیاس ہوتی ہے اور جوہڑ میں پھنس کر رہ جاتے ہیں آج کے نام نہاد دانشور۔

احمد جاوید سے آپ کہیں کہ سارتر، کریکگارڑ، ہائی ڈیگر، ڈیکارٹ، ہیوم اور افلاطون کے فلسفہ اخلاق یا وجودیت کے بارے میں بتائیں اور خدا گواہ ہے لوگ پوری بات سننے کے بعد یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ خود وجودیت پرست ہیں یا خیال پرست۔ یہ ہے بیان کا ایماندارانہ اظہار۔ اور جب آپ کہیں کہ اس پر انہیں اعتراض کیا ہے تو بس اسی فلسفہ کی گتھیاں دوسری طرف سے سلجھانے لگیں گے۔ میں نے پچھلے گیارہ برسوں میں کبھی انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا کوئی نظریہ یا مذہبی رجحان کا اظہار ٹھونستے ہوئے نہیں دیکھا۔ مجھے کئی بار ان کے گھر میں باریش لوگوں کو جو بہت پڑھے لکھے بھی ہیں ( کچھ لوگوں کو میں سماجی اعتبار سے بھی جانتا ہوں ) ان کے گرد دوزانو بیٹھے دیکھا لیکن اس گفتگو میں انہیں نے ہمیں شریک نہیں کیا حالانکہ وہ کوئی ایسا موضوع ہی ڈسکس کر رہے ہوتے تھے جو تصوف یا شریعت سے متعلق ہوتا۔

ایک بار میں نے غالب کا شعر پڑھا، ”گو میں رہا رہیں ستم ہائے روزگار / لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا“ اور احمد جاوید سر دھنتے رہے۔ محفل میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو میر کو غالب پر فوقیت دیتے تھے۔ میں نے موقع تاک کے پانی میں پتھر پھینکا کہ ”جناب! دیکھیے کیا زبردست خیال ہے اور اب بھی بہت سے بیوقوف میر کو غالب سے بڑا شاعر کہتے ہیں“۔ احمد صاحب مسکرا کر سنتے رہے اور میں نے غالب کو جتوانے کے لیے فوراً کہا، ”احمد صاحب! آپ کیا کہیں گے؟ “۔

بولے، ”بھائی! میں بھی انہی بیوقوفوں میں سے ہوں“۔ بیگم اختر فیض آبادی اور برکت علی خاں کی گائیکی بہت پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موسیقی رموز جاننے سے زیادہ اس کیفیت میں رچنے بسنے کا نام ہے جو مطلوب ہے۔ ”اے محبت تیرے انجام پہ رونا آ یا“ میں بیگم اختر کے گلے کا سوز دراصل اس کی زندگی کا کرب تھا جو سوز میں سمٹ آ یا۔ اسی طرح غالب کو پڑھنے میں جب مشکل پیش آتی تو انہوں نے فرمایا کہ شعر سننے یا پڑھنے کے بعد فوراً اس کی پرتیں کھولنے نہ بیٹھو بل کہ اسے محسوس کرو اور غالب کی پینٹنگ کو اپنے ذہن میں مکمل کرو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2