نئی نسل سے مکالمہ


چائنا نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں کے چھوٹے قد چپٹی ناک اور چھوٹی آنکھوں والے لوگوں نے کم عرصے میں اپنے ملک کو ایک منفرد مقام دلوا دیا ہے، دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو جس نے چائینیز پروڈکٹ استعمال نہ کی ہو۔ انگریز دودھ والی چائے کے ذریعے ایشیائی لوگوں کی رگوں میں سرایت کر گیا تو چاینیز سبز چائے اور سوپ کے ذریعے دنیا کو مطیع کر رہے ہیں۔ یہ میرا چین کا دوسرا دورہ تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کے مجھ سا صحافت کا ادنی ترین طالب علم پاکستان کے چوٹی کے صحافت کے پروفیسروں کے ہمراہ تھا جہاں پر سفر سے مجھے چائنا کے بارے میں بہت کچھ جانے کو ملا۔

وہیں مجھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا جن میں پارٹی از اوور جیسے شہرہ آفاق کالم کے خالق سہیل وڑائچ، تند و تیز جملوں کے ماہر ہارون رشید، انگریزی صحافت کے معتبر نام سلیم بخاری، ٹھنڈے میٹھے صحافی مجاہد بریلوی، صحافت کے آفاق کا درخشاں ستارہ منصور آفاق، نئی نسل کے پسندیدہ لکھاری خوشنود علی خان، صحافت میں بے نظیر نذیر لغاری، صحافت کا موذن ارشاد عارف شامل تھے۔ حسب روایت جب آپ پاکستان سے باہر سے ہو کے آتے ہیں تو دوست احباب اور فیملی کے لوگ بڑے اشتیاق سے بیرونی دنیا کے قصے سنتے ہیں۔

میں نے ابھی تک کسی Jealous یا Appreciate کرنے والے سے روداد چائنا بیان نہیں کی ہے میرا پہلا سامع میرا لڑکپن میں قدم رکھتا ہوا بیٹا ہے۔ میں چائنا کی تعمیر وترقی اور دنیا اور بالخصوص پاکستان پے اس کے اثر و رسوخ کی تمام باتیں بیان کر چکا تو اس کے ایک سوال نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ بابا آپ وہاں سے پاکستان کے لئے کیا لے کے آئے؟

جواب انتہائی مشکل لگ رہا تھا لاجواب ہونا بھی ایک مشرقی باپ کی شان کے خلاف تھا، سو ایک سبق آموز واقعہ کو جواب بنا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ بیٹا چائنا میں میری ملاقات ایک ایسے چائنیز سے ہوئی جو وہاں کی یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر تھا اور 1987 میں وہ پاکستان میں مقیم تھا تو اردو زبان کے شوق نے اسے اردو زبان کا پروفیسر بنا دیا۔ یہ نگ منگ شنگ ہے اس وقت وہ پیکنگ یونیورسٹی چین میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے سربراہ ییں، اس سے پہلے شعبہ اردو کے سربراہ تھے، انہوں نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ چینی قونصلیٹ کراچی میں بطور مترجم/قونصلر کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز بھی کیا۔

منیر نیازی کے گرویدہ ہیں بات بات پر منیر نیازی سے ملاقات ہونے والے باتوں حوالہ دیتے ہیں، ملاقات کے دوران وہ یہ راز افشا کرتے ہیں کہ جب کراچی سے واپس بیجنگ جاتا اپنے گھر والوں کے لئے میڈ ان پاکستان گھڑیاں تحفے کے طور پر لے جاتا اور بچے بڑے فخر سے وہ گھڑیاں پہنتے جیسے آج ہمارا کوئی عزیز ہمارے لئے امریکہ یا جاپان سے کوئی معیاری تحفہ لائے اور ہم عزیزوں اور دوستوں کو بڑے فخر سے اس کے بارے بتاتے پھریں، اسی طرح اس پروفیسر کے بچے وہ گھڑی پہن کے اتراتے تھے۔

لیکن آج وہ پروفیسر ایک لاجواب کر دینے والا سوال کرتا ہے کہ آپ پاکستانیوں نے گزشتہ 30 سالوں میں ایک ترقی کی جانب تیزی سے جاتی ہوئی ریاست کو غربت و افلاس کی ماری ہوئی ریاست بنا کے رکھ دیا ہے۔ 60 کے دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق کے بنائے ہوئے معاشی ماڈل میں ہم اس مرحلے تک پہنچے تھے کہ اس دور کے ہمارے بنائے ہوئے ماڈل پر نو صنعتی ممالک یعنی برازیل، ہانگ کانگ، سنگاپور، ملائیشیا نے عمل کرکے اپنے ملک کو کہیں سے کہیں پہنچادیا ہم نے نت نئے تجربات کرتے رہے۔ زرعی سوسائٹی سے صنعتی معاشرے کی طرف مڑ گئے۔ Import Substitutionنے ہمیں مائل کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم

نہ ادھرکے رہے نہ ادھر کے۔ آج پھر نئی حکومت کو زراعت کا خیال اور زرعی میدان میں ترقی کا خیال آگیا ہے اور ہم 50 سال پہلے کے اس دور کو یاد کررہے ہیں، جب ہمارے ملک کی بنی ہوئی اشیا بھی کسی کو فخریہ تحفے کے طور پر دی جاسکتی تھیں۔ کیا اب کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ کوئی چائنیز باشندہ پاکستان سے کوئی پروڈکٹ اپنے بچوں کے لئے تحفتاً لے جائے؟

میری بات سے میرا بیٹا کشمکش کا شکار لگ رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ پو چھنا چاہ رہا ہے کہ بابا یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔ لیکن مجھے پروفیسر کا یہ سوال ایک تحفہ لگا تھا گرچہ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور پرفیسر کا سوال ہی میں نے بیٹے کو پاکستان کے لئے تحفہ قرار دے دیا۔ لیکن بابا جس سوال کو آپ پاکستان کے لئے تحفہ قرار دے رہے ہیں وہ کیونکر تحفہ ہے اور اس کا جواب کون دے گا؟

بیٹے کی بے چینی اس کے غیر مطمئن ہونے کی دلیل تھی۔

اس کے کچے ذہن کو میں نے شدید مشکل میں ڈال دیاتھا۔ اب ایک پاکستانی کی طرح جان بھی چھڑانی تھی کیونکہ ایک سوال کو تحفہ بنا کر بیٹے کے سامنے افلاطون بن چکا تھا سواب کوئی سیاسی حل نکالنا تھا۔ میں نے کہا بیٹا یہ سوال مجھ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری چائنیز قوم کا طعنہ محسوس ہوا ہے۔ اس کا جواب اگرچہ میرے پاس نہیں لیکن یہ سوال میں ان کے سامنے رکھتا ہوں جو میری اور آپ کی قسمت بدلنے کے گزشتہ 3 دہائیوں سے دعویدار ہیں

میں پاکستان کھپے والوں سے پوچھتا ہوں۔
میں ووٹ کو عزت دینے والوں سے پوچھتا ہوں۔
میں سب سے پہلے پاکستان والوں سے پوچھتا ہوں۔

میں تبدیلی والوں سے پوچھتا ہوں۔
میں قوم پرستوں سے پوچھتا ہوں۔
میں مذہب پرستوں سے پوچھتا ہوں۔

ہمیں شاید کہیں نہ کہیں سے چین کے باسی پروفیسر کے سوال کا جواب مل جائے کہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ چائنا کا کوئی باشندہ پاکستان سے واپسی پر اپنے اقرباء کے لئے کوئی پاکستانی پروڈکٹ کیوں نہیں لے جا سکتا؟

جبکہ 30 سال پہلے وہ فخریہ پاکستانی گھڑیاں اپنوں کے لئے تحفتاً لے جاتے تھے۔
اس سوال کا جواب یقیناً ایک بہت بڑی کھوج ہو گی۔

اور بیٹا اگر میں، میرے دوست، آپ کے دوست، آپ کے ٹیچرز اور ہمارا سارا معاشرہ پروفیسر کے اس سوال کا بوجھ اٹھا لیں اور ہم جواب تلاش کر پائیں تو یہ بھی ایک تحفہ ہو گا جو شاید اگلی نسل کے کام آئے۔
مجھے لگ رہا تھا کہ میرا جوان سال بیٹا غیر مطمئن ہے اس فلسفے سے لیکن وہ مزید سوال کرکے کسی اور الجھن میں پھنسنے اور مجھے پریشان کے موڈ میں نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).