ملا اور ملالہ کے بیچ پھنسا عام پاکستانی


مسجد کے باہر ایک خاتون بیٹھی نظر آتی ہے۔ مسجد اندر سے شاندار ہے مہنگے قالین بچھے ہیں۔ پنکھے چل رہے ہیں جنریٹر بھی ہیں۔ اور ایک عمر رسیدہ کمزور بیمار سی خاتون باہر بیٹھی ہے۔ نمازی آتے ہیں صاف ستھرے کلف لگے کپڑوں میں۔ اس خاتون کو کچھ پیسے بھی دے جاتے ہیں۔ پھر رات کو وہیں سو جاتی ہے۔ میں اس منظر کو دیکھتی ہوں دل دکھی ہوتا ہے۔ کوئی اس کو اندر ہی لے جائے۔ کیا مسجد میں اتنی جگہ بھی نہیں۔ ایک مسجد کے باہر بیٹھی عورت کو پھلانگ کر گزرنے والے نمازی کبھی اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔

یا اس عورت کے بارے میں جو گھر میں ہے جس نے ان کے لئے مسجد آنے سے پہلے کپڑے استری کیے ہوں گے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہوگا یا کر رہی ہوگی۔ بچوں کو سنبھال رہی ہوگی۔ اس نے نماز بھی پڑھی ہوگی کہ نہیں۔ اس کو مسجد سے کیوں دور کیا گیا جبکہ ازواج مطہرات کے حجرے ہی مسجد نبوی میں تھے۔ جبکہ دور نبوی کی عورت مسجد میں نماز پڑھتی تھی۔ الغرض دماغ میں ہزاروں سوال ہزاروں جواب۔ دل بوجھل۔ گھر پہنچ کر بھی یہی سوچیں۔

ٹی وی چلاتی ہوں تو ایک چینل پر ایوارڈ شو چل رہا ہے۔ ایک خاتون اداکارہ ایوارڈ لینے آتی ہے۔ بہت اچھا دینی اور روحانی کردار تھا بہت اچھی اداکاری کی کہ پورا ملک ہی مداح ہو گیا۔ میں میزبانوں کا لباس چال ڈھال دیکھتی ہوں۔ اداکارہ کا لباس اور انداز دیکھتی ہوں اور اس کردار کو ذہن میں لاتی ہوں تو آتا ہی نہیں۔ میزبان مرد و عورت گلے لگتے ہیں کچھ اس سے بھی ایک قدم آگے۔ دو تین ایوارڈز کے بعد گانا آجاتا ہے۔ پتہ نہیں گانا یا رقص اس کو کیا نام دوں۔ بیس بائیس مرد و خواتین اسٹیج پر آتے ہیں۔ اور بس اس سے زیادہ کیا دیکھوں۔ میں ٹی وی چینل بدل دیتی ہوں۔ لیکن ہر جگہ کچھ ایسا ہی دیکھ کر بند کر دیتی ہوں۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ایک عام پاکستانی اس سوال سے الجھ رہا ہے۔ ملک کو نقصان کون پہنچا رہا ہے۔ مولوی یا لبرل۔ دکھایا تو کچھ ایسا ہی جاتا ہے کہ دینی انتہا پسندی۔ لیکن درحقیقت ملک کو نقصان لبرل انتہاپسندی اور دینی انتہا پسندی دونوں پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ لبرل آگے بڑھ چکے ہیں۔

پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو نہ دینی انتہا پسندی کے حامی ہیں نہ لبرل انتہاپسندی کے۔ ایسی خواتین ہیں جو سر پر دوپٹہ نہیں پہنتیں لیکن بہت نیک اور دیندار ہیں نماز قرآن روزہ زکوات خیرات میں آگے ہیں۔ وہ پکنک بھی منائی ہیں ٹی وی بھی دیکھتی ہیں۔ لیکن وہ سڑک پر نکل کر یہ شور نہیں مچاتیں کہ سب خواتین کے سر سے دوپٹہ اتار دیا جائے۔ یہ خواتین کے ساتھ ظلم ہے۔ اور دین کے خلاف باتیں شروع کر دیں۔

ایسے ہی پاکستانی خواتین کی بڑی تعداد حجاب پہنتی ہے۔ وہ حجاب پہن کر یونیورسٹی بھی جاتی ہے۔ ملازمت بھی کرتی ہے۔ اسپورٹس میں حصہ بھی لیتی ہے۔ ڈاکٹر انجنیئر حتی کہ پائلٹ بھی ہے۔ لیکن وہ سڑک پہ آکر باقی خواتین کے سر نہ ڈھانپنے کو چیلنج نہیں کرتیں۔ فتوے نہیں دیتیں۔ جنت جہنم کے فیصلے نہیں کرتیں۔

اور یہی طبقہ ہے جسے میں نہ ملا کا حامی نہ ملالہ کا دوست کا نام دیا ہے۔ یہاں ذکر خواتین کا ہے لیکن آپ اس کو باآسانی مردوں کے لئے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یہی طبقہ ہے جو ملک سے سب زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس کی بہتری چاہتا ہے۔ یہ آسیہ بی بی کے توہین رسالت کی خبر پر رنجیدہ ہوتا ہے اور چرچ پہ ہونے والے دھماکے پر بھی اور کسی ہندو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر بھی۔ یہ وہ عام پاکستانی ہے جو دین کی بات کرے تو لبرل طالبان کا فتوی لگا دیتے ہیں۔

آسیہ بی بی کے حق میں بات کرے تو کافر قرار دے دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک عام پاکستانی ہیں جو پڑھنے لکھنے سیر و تفریح کرنے ملک سے باہر جائیں تو پہلے ملک کے امیج پر اٹھنے والے سوالوں کے جواب دیں۔ خود کو بے ضرر ثابت کریں۔ اپنے لباس کی وجہ سے رکاوٹیں سہیں۔ ملک سے دور کہیں پیسا ٹورسٹ بس کا ڈرائیور کہتا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ اب آپ کے ملک میں آگ نہیں برستی ہوگی۔ اور امن ہو گا۔ تو دل اداس ہو جاتا ہے۔ کہیں کوئی 12 سالہ آسٹریلین بچہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کا نیا وزیراعظم بہت پسند ہے تو دل امید سے بھر جاتا ہے۔

یہ عام پاکستانی اپنے دین کی بدنامی پر تلے نام نہاد دینی اور لبرل انتہا پسندوں کے بیچ پھنس گیا ہے۔ لیکن مایوس نہیں۔ یہ اب ان کی چالوں کو سمجھنے لگا ہے۔ دونوں گروہوں کی ڈوریاں کہیں اور سے ہی ہلتی ہیں۔ یہ دینی انتہا پسند کس طرح معصوم ذہنوں کو ورغلاتے ہیں۔ خود کش حملوں پر اکساتے ہیں۔ یہ لبرل انتہا پسند آزادی کے نام پر آپ کو کس جہنم میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ کس طرح اقلیتوں کو اپنا ہتھیار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جس ملک کی اکثریت ہی بے حال ہو وہاں ہر کوئی مشکل میں ہی ہوگا۔ پھر بھی لوگ ان کا ہتھیار بن جاتے ہیں۔ جن دو خواتین کے جھگڑے پر اتنا فساد بنا کوئی یہ تو دیکھ لیتا کیا دونوں نے قرآن اور بائبل پڑھ اور سمجھ رکھا ہے۔ ان کا دینی شعور کتنا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں ہمیں دوسروں کے دین یا خداؤں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ہم ایسا کریں گے تو جہالت کی بنا پر وہ ہمارے دین کو برا کہیں گے۔ لیکن پھر بھی ہم روز مرہ زندگی میں ایسا کرتے ہیں۔ ہم حضرت عیسی کے ماننے والے ہیں اور ان کے ماننے والوں کو بھنگی چوڑا کہتے ہیں۔ ایسا کر کہ کیا ہم ان کو قرآن کی آیت کے مطابق اکسا نہیں رہے ہوتے؟ اور پھر اس کا فائدہ اٹھانے نام نہاد سوشل ورکر اسکالر پہنچ جاتے ہیں جو طاق لگائے بیٹھے ہوتے ہی کچھ ایسا ہو تو اپنی دکان چمکائیں۔

انتہاپسندوں کے دو گروہوں کے درمیان پھنسا یہ طبقہ ہی ہے جن کی وجہ سے ملک قائم ہے۔ یہ عام پاکستانی مسلمان ہو یا غیر مسلم یہ ملک کی فلاح اور ترقی چاہتا ہے۔ لیکن اسے مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ اٹھ کر با آواز بلند دونوں انتہا پسندوں کو رد کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دین اور دنیا دونوں کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔

جیسے ایک مسلمان کے ہونے تک قیامت برپا نہ کرنے کا اللہ نے کہا ہے۔ ایسے ہی میرا دل کہتا ہے کہ جب تک ایک سچا اور مخلص پاکستانی اس ملک میں ہے اس ملک کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ انشا اللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).