مولانا سمیع الحق کا قتل اور نظریاتی مخالفین کا رد عمل


مولانا سمیع الحق کو دن دیہاڑے ان کے گھر میں تیز دھار آلے سے قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی بھیانک جرم ہے اور میں اس جرم کی غیر مشروط اور بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ کسی بھی انسان کا قتل ایک ناقابل تلافی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ نہ صرف قتل کرنا بلکہ قتل کی دھمکی دینا، کسی کو بھی واجب القتل قرار دینا، یا ایسی کسی تحریک، نعرے یا جماعت کی حمایت کرنا جو انسانوں کے قتل کو جائز سمجھتی ہو، یہ سب بھیانک جرائم ہیں۔

حتی کہ کسی ایسے شخص کو قتل کرنا بھی جرم ہے جس نے یہ سارے جرائم کھلم کھلا کر رکھے ہوں اور ان اقرار بھی کرتا ہو۔ جائز صرف یہ ہے کہ سٹیٹ کا جسٹس ڈیپارٹمنٹ مقدمہ چلائے اور فیصلے پر پہنچ کر قانون کے مطابق سزا دے۔ قتل کرنے کا حق سٹیٹ کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کاش ہماری سٹیٹ اس قابل ہوتی کہ مجرموں کو پکڑ سکتی، انصاف کے سارے تقاضے پورے کرتی اور قانون کے مطابق سزا دے پاتی۔ لیکن ابھی تک تو امید بہت کم ہے۔ جس طرح پاکستان میں اب تک ہزاروں بلکہ لاکھوں قتل ہونے والے لوگوں کو انصاف نہیں ملا اسی طرح مولانا سمیع الحق صاحب کو بھی شاید ہی انصاف مل سکے۔

میں مولانا سمیع الحق صاحب کو ذاتی طور جانتا ہوں نہ ان سے کبھی ملا ہوں۔ میں ان کے مدرسے بھی کبھی نہیں گیا۔ لیکن ہمارے دور کی وہ ایک نمایاں شخصیت تھے۔ ان کے نظریات اور کام کو نہ جاننا یا نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا۔ میں ان کے کام اور نظریات کا شدید مخالف ہوں۔ ان کا زیادہ تر کام ایسا تھا کہ جسے میں انسانیت کے خلاف جرم سمجھتا ہوں۔ اور میں ان کے نظریات کے خلاف کام کرتا ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے کام کی وقعت کچھ بھی نہیں لیکن کوشش تو جاری ہے۔

میں شخصی آزادی کا راج قائم کرنے کی بات کرتا ہوں جب کہ وہ اس بات کے نہایت مخالف تھے۔ ان کے بعض شاگردوں اور پیروکاروں نے پاکستان میں بے دریغ قتل عام کیا اور اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں انسانی زندگی کو سب چیزوں پر مقدم سمجھتا ہوں جب کہ وہ اور ان کی تعلیمات کے مطابق بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کا قتل ہی نہیں بلکہ قتل عام بھی جائز ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے اپنے یہ نظریات کبھی مخفی نہیں رکھے۔

وہ طالبان اور ان کی آئیڈیالوجی کے ساتھ اپنے رشتے پر فخر کرتے تھے۔ طالبان نے پاکستان اور افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی ہے اور ابھی بھی کھیل رہے ہیں۔ گو کہ مولانا صاحب نے اپنے ہاتھوں سے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا ہو گا لیکن پھر بھی بہت سارے انسانوں کا خون بالواسطہ طور پر ان کی ہتھیلی پر تلاش کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس قتال کی حمایت کرتے تھے اور قتل کرنے والے ان کے شاگرد تھے۔

ہمارے دور کے انسانیت کے دوسرے بڑے قاتل جیسا کہ امریکی صدور ریگن اور دونوں بش، سوویت یونین کے سربراہ برزنیف اور برطانیہ کے وزرائے اعظم مارگیٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر نے بھی اپنے ہاتھوں سے شاید ہی کبھی کسی کا قتل کیا ہو لیکن پھر بھی لاکھوں انسانوں کا خون ان کے پاس کردہ آرڈرز کی وجہ سے ہوا اس لیے وہ بھی اس کے مجرم ہیں۔ اسی طرح پاکستان، ایران اور عراق کے بعض سربراہان نے بھی اپنے اپنے ملکوں میں انسانوں کے قتل سمیت انسانیت کے خلاف کافی جرائم کیے ہیں اور اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اس لیے وہ بھی اپنے ملکوں میں لوگوں کے درمیان تفریق اور دوسرے جرائم ذمہ دار ہیں۔

میں ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتا ہوں جہاں سب کی جان و مال محفوظ ہو۔ جہاں اپنی مرضی کی زندگی جینا ہر شخص کا حق ہو اور اس حق کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ جہاں لوگ دوسروں کے عقیدے کی عزت اور احترام کرتے ہوں اور سٹیٹ عقیدہ جانے بغیر آپ کے تحفظ کی ذمہ دار ہو۔ جہاں سب انسان برابر ہوں۔ جنس، نسل، ذات، مذہب یا کسی بھی اور بنیاد پر کوئی تفریق نہ برتی جائے۔ میں شخصی آزادی کے راج کے ساتھ ساتھ تشدد سے پاک معاشرے کا خواب دیکھتا ہوں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ایک بچے کو تھپڑ مارنا بھی قابل سزا جرم ٹھہرے۔ مولانا سمیع الحق صاحب ان نظریات کے سخت مخالف تھے۔ وہ مختلف بنیادوں پر انسانوں میں تفریق کے قائل تھے اور اس کا کھلے عام اظہار بھی کرتے تھے۔ ان کے لیے جسمانی تشدد بھی کافی صورتوں میں جائز تھا۔

مولانا سمیع الحق صاحب کے ساتھ اتنے واضح نظریاتی اختلاف کے باوجود میں ان کے قتل کو ایک گھناؤنا جرم تصور کرتا ہوں، اس کی شدید مذمت کرتا ہوں اور انصاف کا مطالبہ کرتا ہوں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik