ناقابل اشاعت: خادم رضوی کی معذرت ”فیض خاص“ یا ”فیض عام“


ایک بار پھر ”فیض“ عام ہوا یا پھر ”بھون دینے“ کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ ایسے ویسے یا جیسے تیسے حکومتی رِٹ قائم ہو گئی۔ منت سماجت سے ہی سہی مگر جلاؤ گھیراؤ کرنے والے مظاہرین واپس لوٹ گئے اور معمولاتِ زندگی بحال ہوگئے۔ اب اس پر خون کے پیاسے جو لبرلز سرنڈر کاتاثر دے رہے ہیں ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے وہ مقولہ تو سنا ہو گا کہ طاقت ہمیشہ دکھانے کے لئے ہوتی ہے استعمال نہیں کی جاتی۔ میرے کپتان کے نئے پاکستان میں بھی اسی فارمولے پر عمل کیاگیا۔

ایسی بھی کوئی اطلاعات نہیں کہ دھرنے کے شرکا ء میں علی الاعلان ایک ایک ہزار روپے کے لفافے تقسیم کیے گئے ہوں نہ ہی تحریری معاہدے کے نکات سے ایسا کوئی تاثر ملتا ہے کہ حکومت نے رٹ چیلنج کرنے والوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ نظر ثانی درخواست دائر کرنا فریقین کا قانونی حق ہے اس پر حکومت کیوں معترض ہوگی؟ آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کے لئے قانونی کارروائی کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے اب حکومت یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش کرکے اپنا وعدہ پورا کر دے گی مگر وفاقی کابینہ پر لازم نہیں کہ وہ اس بات پر اتفاق ہی کرے تیسری شرط یہ ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اگر کسی کی جان گئی ہے تو اس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

عام حالات میں بھی اگر کوئی شخص مارا جاتا ہے تو اس کی موت کی تحقیقات ہوتی ہیں اور ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دی جاتی ہے لہٰذا محولہ بالا شرط کو پورا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ 30 اکتوبر کے بعد جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں، چوتھی شرط کے مطابق انہیں رہا کرنا بھی ہرگز اچنبھے کی بات نہیں کہ حکومتیں فتنہ فساد ختم کرنے کے لئے لوگوں کو حراست میں لیتی ہیں اور بعد ازاں ان افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ہاں مگر اس معاہدے کی آخری شرط بہت دلچسپ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہے تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ معذرت بے قصور شہریوں سے ان کے مالی نقصان اور توڑ پھوڑ کے تناظر میں کی گئی ہے تو اس خوش فہمی کو ہرگز پاس نہ پھٹکنے دیں کیونکہ عام شہریوں کی تو ”پین دی سری“۔ تکلف برطرف، یہ معذرت تو دراصل توہین عدالت کے قانون اور سنگین غداری کے مقدمات میں سزا کا نعم البدل ہے۔

15 برس ہوتے ہیں، اے آر ڈی کے سربراہ اور مسلم لیگ (ن) کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایک خط موصول ہوا ہے جس کا عنوان ہے ”قومی قیادت کے نام“۔ اس پریم پتر کی بات بھری بزم میں کہنے پر جاوید ہاشمی کو 29 اور 30 اکتوبر 2003 ء کی درمیانی رات پارلیمنٹ لاجز سے گرفتار کرلیا گیا اور اڈیالہ جیل میں ہی ان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔ ٹرائل مکمل ہونے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چوہدری اسد رضا نے جاوید ہاشمی کو 23 سال قید کی سزا سنا دی کیونکہ استغاثہ کے مطابق جاوید ہاشمی نے فوجی افسروں کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی تھی۔

چونکہ ڈکٹیٹر کا زمانہ تھا، اظہار رائے کی آزادیاں محدود تر تھیں، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے اس لئے جاوید ہاشمی کے خلاف ٹرائل کاکسی جمہوری دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے میں ایک اور تمثیل پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ ماضی قریب میں ایک انگریزی اخبار نے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں عسکری و سیاسی قیادت کے مابین اختلاف رائے کی خبر شائع کی جس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی اور آج نہ صرف وہ خبر دینے والا رپورٹر بلکہ دو سابق وزرائے اعظم غداری کے مقدمے میں عدالتوں کے چکر لگاتے پھرتے ہیں۔

جاوید ہاشمی کے اس خط اور انگریزی اخبار کی اس خبر کے برعکس تحریک لبیک کے قائدین نے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان اور فوجی قیادت سے متعلق ایسی نازیبا اور قابل اعتراض گفتگو کی کہ میڈیا اسے رپورٹ کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکا۔ رات کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب کے دوران اس خود ساختہ سنسرشپ کا پردہ چاک کرتے ہوئے تحریک لبیک کے قائدین کی خطرناک گفتگو کے چند نمونے پیش کیے اور وہ پی ٹی وی سمیت تمام چینلز پر نشر ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود یہ ڈرپوک کالم نگار وہ جملے نقل کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایسی صورت میں کالم ناقابل اشاعت قرار پانے کا واضح خدشہ موجود ہے۔

غضب خدا کا یہ لوگ سکیورٹی گارڈز ہی نہیں باورچیوں، ڈرائیوروں اور گھریلو ملازموں کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکساتے رہے اور یہاں تک کہ خاتون اول کو بھی ماورائے عدالت قتل کی ترغیب دی گئی۔ اگر یہ دورآمریت ہوتا یا پھر پرانے پاکستان میں اس طرح کے جرائم سرزد ہوتے تو یقیناً نتائج مختلف ہوتے۔ عدلیہ کی تضحیک، معزز جج صاحبان کو دھمکیاں دینے اور فوجی افسروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات میں ان افراد کے خلاف سنگین غداری کے مقدمات چلا کر کم ازکم عمر قید کی سزا دی جاتی اور اگر تگڑا انصاف ہوتا تو سزائے موت بھی ہو سکتی تھی۔

لیکن آپ نئے پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت اور معزز عدلیہ کی فراخدلی ملاحظہ فرمائیں کہ ان افراد کو محض مشروط معذرت پر چھوڑ دیا گیا۔ بلاشبہ ایسی دریا دلی کا مظاہرہ تو مدینہ کی ریاست میں ہی ہو سکتا ہے یا پھر فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا ”جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو“۔ پوچھنا صرف یہ تھا کہ کیا اس معافی کا اطلاق ان بدقسمت افراد پر بھی ہوگا جنہیں اس سے پہلے توہین عدالت یا سنگین غداری کے مقدمات میں سزا ہو چکی ہے؟

کیا مستقبل میں بھی فراخدلی و دریا دلی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور محض معذرت پر معافی تلافی ہو جایا کرے گی؟ بلاگرز اور کالم نگار بھی اس پیشکش سے ”فیض“ پا سکتے ہیں یا پھر یہ ایمنسٹی سکیم محدود محدت کے لئے تھی اور خادم رضوی جیسے ”اپنے“ لوگ ہی ”فیض“ یاب ہو سکتے ہیں؟ کل ملا کر بات یہ ہے کہ اسے ”فیض عام“ سمجھا جائے یا پھر ”فیض خاص“۔
کالم نگار پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ”جنگ“ سے وابستہ ہیں اور یہ ناقابل اشاعت کالم ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri