عاصیہ اور مشال، جو چاہے آپ کا ملا فتنہ فساد کرے


بھارت میں 4 کروڑ پیروکار، 400 آشرم اور 10 ہزار کروڑ سے زائد کی جائیداد کے مالک اسومل ہرپلانی المعروف گرو آسارام باپو کو ایک نابالغ بچی کے ساتھ زنا بالجبر کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا۔ ایک اور گرمیت رام رحیم جو ڈیرہ سچا سودہ کا سربراہ تھا اور تقریبا ایک کروڑ پیروکار اس کے مختلف آشرم میں رہتے ہیں۔ اس کے کرتوت ثابت ہونے پر اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ ہنگامے پھوٹ پڑے اس میں 38 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ہنگامے، جھڑپیں ہر جگہ ہوتی ہیں مگر بار بار کے تماشوں کے آگے ایک ریاست لاچار ہو، یہ کہاں کہاں ہوتا ہے؟

فیض آباد میں جس فتنہ کی بنیاد رکھی گئی، کاریگر شاید جانتے نہیں تھے کہ اگلی بار یہ ایک ایک لفافے سے نہیں مانیں گے۔ اسلام کا قلعہ، دنیا کی ساتویں جوہری طاقت۔ ایک ایسا پاکستان جہاں جنونیت، انتہاپسندی اور شک ہے۔ شک بھی بارے ایمان کے کہ جس کی جانچ کا کوئی پیمانہ انسان کے پاس نہیں۔ گالم گلوچ بریگیڈ کا ایک اور سرکس پاکستان کو کتنا پیچھے لے گیا؟ یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا مگر اب اس جن کو بوتل میں کون ڈالے گا؟

جو سوال کرے گا وہ گستاخ ہو گا، جو جواب تجویز کرے گا وہ گستاخ ہو گا مگر یہ بھی کوئی سمجھا دے کہ اگر شک کی ہی بنیاد پہ ایمان کے فیصلے ہوں گے تو پھر تو بچے گا کوئی نہیں۔ منظور پشتین نے کبھی آرمی چیف کے خلاف بغاوت اور ججوں کے قتل کا نہیں کہا۔ اگر کہتا تو شاید اس سے بھی معاہدہ ہو جاتا۔ ہو سکتا تھا؟ پتہ نہیں۔ بہرحال وہ بلیک میلر نہیں۔

پھل فروش کے کیلے گستاخ تھے؟ تنخواہ دار طبقے کی ضرورت موٹر سائیکلیں گستاخ تھیں؟ مٹھائی کی دکان کی لوٹ مار باعث ثواب تھی؟ موٹر وے کو بلاک کرنا اور جگہ جگہ آگ لگا کر خوف پھیلانا دین کی سر بلندی تھی؟

”املاک کو نقصان پہنچانے اور جلاؤ گھیراؤ سے ختم نبوت کا کونسا تحفظ ہوتا؟ “ کسی نے یہ معصومانہ سوال کیوں نہیں پوچھا خادم رضوی صاحب سے۔ خیر یہ بلیک میلنگ کا نیا انداز ہے۔ ایک مسئلہ تھمے گا تو دوسرا۔ مگر اب یہ سرکس چلتا رہے گا۔ فقط چار جھنڈے اور ایک لاوڈ اسپیکر کی ضرورت ہے باقی آپ سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کرے گا کیونکہ یہاں سوال اٹھانا گستاخی ہے۔ یہ کیا اذیتیں اس وطن پہ اتری ہیں؟

مگر اذیت کیا ہوتی ہے؟ قیامت کسے کہتے ہیں؟ اقبال خان کو پتہ ہے۔ جوان بیٹے کا ادھڑا، پھٹا، بھنبھوڑا ہوا جسم سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے اسے اعلی تعلیم کے لئے بھوکے بھیڑیوں کے درمیان بھیجا تھا۔ ایک الزام کیا لگا کہ ساتھ بیٹھنے والے بھی اس کا گلا کاٹنے کو آئے۔ کسی نے پتھر، کسی نے گملا، کسی نے ڈنڈا مارا۔ مزید ایمانی تقاضے کی تسکین کے لئے دوسری منزل سے نیچے پھینکا۔ اور جذبہ جاگا تو برہنہ کر کے گھسیٹا۔ جب دم توڑ چکا پھر بھی مذہبی جوش و خروش سے اپنا ایمان جگاتے رہے۔

میت گھر کو پہنچی تو ظلم پر مزید ظلم ہوا۔ مولوی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ایک افواہ کی بناء پر اس کا نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا بلکہ لاوڈ اسپیکر پہ لوگوں کو بھی اس کا جنازہ پڑھنے سے منع کیا۔ ایک بوڑھے باپ کی اس سے بڑی بے بسی کیا ہو گی کہ اس کی جوان اولاد کو شک کی بنیاد پر نہ صرف مار دیا جائے بلکہ اس کا جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کیا جائے۔ اس کی ماں کہتی ہے جب میں نے اس کے بے جان ہاتھ اٹھا کر چومنے چاہے تو اس کی ساری انگلیاں ٹوٹی اہوئی تھیں۔ یہ ہے آپ کا عشق، یہ ہے آپ کا جذبہ۔

چیف جسٹس کو بھی اندازہ تھا اس لیے سب سے پہلے فیصلے میں کلمہ لکھنا ضروری سمجھا۔ اب فتنہ فساد بریگیڈ کا اصرار ہے کہ آسیہ کو عاصیہ (گنہگار) کہلائی جائے۔ چلیں آسیہ کو عاصیہ کر دیا، مشال کو مثال بنا کر رکھ دیا۔ جو چاہے آپ کا ملا فتنہ فساد کرے۔ نہ جانے ایک عام، غریب یا مڈل کلاس عیسائی اس وقت پاکستان میں خود کو کیسا محسوس کر رہا ہو گا؟ ایک ویڈیو میں آسیہ بی بی کی بیٹیوں کی آنکھوں کے آنسو دیکھیں اور شرم سے ڈوب مرنے کو دل چاہتا ہے۔ اس بچی کا سر اس لیے جھکا ہوا ہے کیونکہ اس پر ہمارے نام نہاد رہنماؤں کی اشتعال انگیزی اور بدنیتی کا بوجھ ہے۔ بچی کی آنکھوں میں آنسو اس ریاست کے لئے باعث شرمندگی ہیں۔

جن کے نام پہ ہم ظلم کرتے ہیں، زیادتی کرتے ہیں، خون ناحق کرتے ہیں ؛ اللہ نے انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم، سب کا نہیں پتا مگر میری طرف سے انتہائی شرمندگی اور معافی کی درخواست کے بعد، آپ پہ بے شمار درود و سلام۔ مجھے، میرے والدین، میری اولاد اور میرے تمام رشتوں کو روز قیامت اپنی شفاعت سے محروم نہ کیجئے گا۔

اگر مولوی کے بجائے سائنسدان، مفکر، ادیب اور محقق ہمارے رہبر ہوتے۔ کیوں ہم خلاوں میں سفر کرنے کے بجائے اپنے ہی جہالت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں؟ کیونکہ ہماری سوچ پر اب خوف کی سیاہی چھا گئی ہے اور اندھیرا اتنا ہے کہ سوال کی روشنی کہیں دکھائی نہ دے۔ محترم افسانہ نگار اے حمید نے لکھا تھا ”قوم، مذہب، ملت اور سیاست کے نام پر اپنی گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے والے اور اپنی کوٹھیوں میں نئے کمرے بنوانے والے دردمندان قوم ہیں، جعلی سکے ہیں کہ ایک کے بعد ایک بنتے چلے جا رہے ہیں۔ روشنی کے داغ ہیں کہ ایک کے بعد ایک ابھرتے جا رہے ہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).