شوقیہ جسم فروش


روز مرہ کی اشیا ء خریدنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہوتی ہے۔ کپڑے کی مارکیٹ ہو یا الیکٹرونکس کی دکان، جنرل سٹور ہو یا کوئی بوتیک آپ کو خریداری کرنے والوں میں خواتین نمایاں نظر آئیں گی۔ اچھے اور برے کی سب سے زیادہ پہچان وکیل، صحافی اور پولیس والے کے بعد دکاندار اور رکشہ یا ٹیکسی چلانے والے کو ہوتی ہے۔ یہ دکاندار شریف گھرانے کی خواتین کو کسی اور طرح اور ذراکھلی ڈھلی قسم کی خواتین کو کسی اور انداز میں میں ٹریٹ کرتے ہیں۔

فورٹریس سٹیڈیم میں ایک بوتیک پر دوپہر کے وقت اکا دکا گاہک ہی پھر رہے تھے۔ زیادہ تر دکانیں خالی تھیں اور دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ ایک جاننے والے کی بوتیک پر آج مجھے دوسرا دن تھا لیکن ابھی تک میرے مطلب کی کسی خاتون نے قدم رنجہ نہیں فرمائے تھے۔ مجھے میرے دوست نے کہا تھا کہ اچھے گھروں کی خواتین کے علاوہ ”چالو مال“ بھی بڑی تعداد میں شاپنگ کرنے آتا ہے۔ میں حیران تھا کہ شاید شوقیہ فنکاروں کو میری موجودگی کی اطلاع مل گئی ہے۔

ابھی ہم یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ دو خوبرو دو شیزائیں بوتیک میں داخل ہوئیں۔ بوتیک کے مالک نے ایک ہی نظر میں انہیں پہچان لیا اور مجھے اشارہ کیا کہ میں ان کے پاس چلا جاؤں۔ میں فوراً کاؤنٹر سے اٹھا کر ان کے قریب چلا گیا۔ مشکل یہ تھی کہ ہر سوٹ پر قیمت کی چٹ لگی ہوئی تھی۔ وہ ملبوسات دیکھنے کے علاوہ قیمت بھی پڑھ رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے انہوں نے تین سوٹ پسند کیے جن کی اوسط قیمت 5000 روپے تھی۔

” قیمت مناسب لگائیں۔ “ ایک نے بڑی دل آویز انداز ہنسی چہرے بکھیرتے ہوئے کہا۔ میں نے فوراً کہا: ”آپ پسند کریں، مناسب ڈسکاؤنٹ کر دیں گے۔ “

” پھر بھی بتائیں کیا لیں گے۔ “
” آپ جو چاہیں دے دیں، ورنہ قیمت تو سوٹوں پر درج ہے۔ “

” نہیں دس از ٹو مچ“ دوسر ی لڑکی نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔

اب میں نے گفتگو شروع کر دی اور انہیں قائل کرنے لگا کہ دیکھیں جی صرف کپڑے کی قیمت اتنی ہے، پھر ہاتھ کی کڑھائی ہے۔ آپ ایسا کریں 4300 فی سوٹ ادا کر دیں ہمیں صرف 100 روپے فی سوٹ بچت ہو گی۔

” نہیں یہ زیادہ ہے۔ “
” تو چلیں آپ ہمارا پرافٹ بھی نہ دیں۔ “ میں نے کہا۔

دونوں لڑکیوں نے ایک مرتبہ پھر تینوں سوٹوں کا جائزہ لیا اور ایک بولی پتہ نہیں اس کی فٹنگ بھی اچھی ہے یا نہیں۔ میں نے فوراً کہا: ”آپ ٹرائی روم میں جا کر چیک کر لیں“

چنانچہ دونوں اوپر بنے ہوئے کیبن میں تشریف گئیں۔ مجھے میرے دوست نے کہا : ”ابھی اوپر سے آواز آئے گی۔ چلے جانا اور بہت دیکھ بھال کر قدم اٹھانا یہ کنٹونمنٹ کا ایریا ہے۔ بعض اوقات بڑے لوگوں کی رشتہ دار خوتین ایڈوینچر کے چکر میں ہوتی ہیں اور ناراض ہو کر مسئلہ کھڑا کر دیتی ہیں۔ دیکھنا مروا نہ دینا۔ “

وہی ہوا اور اوپر سے آواز آئی ”دیکھیں بات سنیں۔ “ میں بھاگ کر اوپر گیا۔ ایک لڑکی ہلکے فیروزی رنگ کا نیا سوٹ پہنے کھڑی تھی۔ ۔ واقعی یہ سوٹ اس پر بہت فٹ آیا تھا اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ میں ایک لمحے کو ٹھٹک گیا کیونکہ وہ حسن کی دیوی لگ رہی تھی۔ میری نظر وں کو پڑھ کر وہ اپنی ساتھی دوست کو پوچھنے لگی : ”یہ رنگ میچ کرتا ہے یا نہیں۔ “

قبل اس کے دوسری لڑکی جواب دیتی میں نے بے ساختہ کہا : ”آپ حور لگ رہی ہیں۔ “ وہ شرما گئی کیونکہ تعریف عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ اس نے اپنے گلے کو چھوتے ہوئے کہا ”اوپر سے کرتہ ذراسا لوز ہے۔ “

میں نے غور سے دیکھا تو ایسی کوئی بات نہ تھی۔ میں نے کہا : ”میرے خیال کے مطابق تو یہ شاید سلا ہی آپ کے لئے ہے۔ “

وہ میری بات سن کر خاموش رہی لیکن دوسری بولی تو پھر اس کی قیمت مناسب کریں کیونکہ 4,200 تو زیادہ ہیں۔
” آپ کچھ بھی نہ دیں اور لے لیں۔ “

” کیا مطلب ہے آپ کا۔ “ وہ لڑکی جس نے سوٹ پہنا ہوا تھا آنکھیں نکال کر بولی۔ میں گھبرا گیا کیونکہ میرے الفاظ کا اس نے سخت برا منایا تھا۔

” میں نے ایمانداری سے کہا ہے کیونکہ اس سوٹ نے آپ کی رنگت کے ساتھ جس طرح میچ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں چاہتا ہوں کہ اب یہ دوبارہ ہینگر کی زینت بننے کی بجائے آپ کے جسم کا حصہ بنے۔ “

دونوں نے غور سے میری بات سنی اور بولیں : ”تو پھر مناسب قیمت لگا ئیں 3000 روپے میں دے دیں۔ “

میں بات لمبی کرنا چاہتا تھا اس لئے دوبارہ تحسین آمیز نظروں سے سوٹ اور سوٹ والی کو دیکھ کر بولا : ”آپ سستا بھی دیکھ لیں لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ہم آپ کو اپنی خرید پر یہ سوٹ دے رہے ہیں۔ “

پہلی بولی: ”نہیں آپ ڈسکاؤنٹ کریں۔ “

میں نے پوچھا باقی دو بھی آپ نے پسند کیے ہیں یا نہیں۔ ایک بولی نہیں ابھی دونوں ٹرائی نہیں کیے۔ میں نے جھٹ کہا کہ آپ ٹرائی کریں پھر بات کر لیں گے۔ ان میں سے ایک اپنی دوست سے کہنے لگی تم ٹرائی کرو میں اپنے لئے بھی ایک دو سوٹ پسند کرتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ نیچے چلی گئی۔ اس وقت کاؤنٹر پر صرف میرا دوست موجود تھا اور سیلزمین باہر بھیج دیے گئے تھے۔ میرے سامنے کھڑی دو شیزہ نے دوسرا سوٹ ٹرائی کیا۔ بلاشبہ وہ ہر لباس میں اچھی لگ رہی تھی۔ دوپٹے کے بغیر وہ مجھ سے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔

” یہ کیسا لگ رہا ہے؟ “

” آپ کے جسم پر آنے کے بعد اچھا ہو گیا ہے۔ “ میں نے ہمت کر کے کہا۔ میرے الفاظ ا س کے د ل میں اتر کر رہ گئے اور اس نے خوشی سے جھومتے ہوئے قد آدم آئینے میں اپنا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اتنے میں سٹیرہیوں میں کسی کے قدم رکھنے کی آواز آئی۔ اس کی سہیلی دو مہنگے ترین سوٹ پکڑے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی اوپر چلی آ رہی تھی۔ میں خاموش سے اس کے جسم کو مختلف زاویوں سے دیکھتا رہا۔ غالباً وہ بھی میری نظروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

” آسیہ دیکھو! “
اس نے دو جملے تعریف کے سننے کی خاطر اپنی سہیلی کو مخاطب کیا۔

” زبردست۔ “ وہ بولی
” ان کا خیال ہے کہ میرے جسم پر آنے کے بعد یہ سوٹ اچھا ہو گیا ہے“ اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔

آسیہ نے غور سے میری طرف دیکھا پھر بولی : ”بوتیک آپ کی ہے؟ “
” سب کچھ آپ ہی کا ہے۔ “ میں نے گول مول جواب دیا۔ اب دونوں نے باری باری کیبن کے ادھ کھلے دروازے میں پانچوں سوٹ ٹرائی کیے۔

میرا دوست جواد اتنی دیر میں اوپر آ گیا۔ وہ اس طرح کے کیسز ہینڈل کرنے کا ماہر تھا۔ اس نے اوپر آتے کہا دونوں دو شیزاؤں کی سیلیکشن کی مخصوص کاروباری انداز میں تعریف شروع کر دی اور مجھے کہا : ”کوئی تمہیں نیچے ملنے آیا ہے۔ “

میں سمجھ گیا او ر فوراً وہاں سے کھسک گیا۔ ان میں سے ایک لڑکی پانچوں سوٹ اٹھا کر نیچے آگئی جب کہ دوسری اوپر موجود رہی۔ میں نے نیچے والی کے لئے بوتل منگوائی اور چند ہی لمحوں میں وہ اپنا فون نمبر میرے حوالے کر رہی تھی۔

ہم باتیں کرتے رہے اور آسیہ کی سہیلی نوشی اوپر ٹرائی دیتی رہی۔

میں نے کاؤنٹر سے آسیہ کو کہا کہ جو سوٹ آپ نے پسند کیا ہے کل رات ویسا ہی ایک جوڑا ادکارہ ریما نے بھی خرید تھا۔
اس نے خرید ا تھا؟ واقعی؟ اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا

” جی ہاں“ میں نے جواب دیا

میں نے آہستہ آہستہ اسے پٹڑی پر لانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر بعد آسیہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ایک قریبی رستوران جا رہی تھی۔ آسیہ کے والدین کا تعلق اپر کلاس سے تھا اور اپر کلاس کی تمام اخلاقی بیماریاں اس میں موجود تھیں۔ وہ کچھ دیر کے لئے تفریح کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کی سہیلی کو بوتیک میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرنا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے کسی پر سکون جگہ جانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ میرے لئے بس اتنا ہی کافی تھا اور جب میں نے جان چھڑانے کے لئے انکار کیا تو اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا کیونکہ اس کے تصور میں بھی نہ تھا کہ کوئی اس کی فراخ دلانہ پیشکش کو مسترد بھی کر سکتا ہے۔ وہ کچھ کہے سنے بغیر رستیوران سے باہر نکل گئی اور میں آہستہ آہستہ چائے سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).