معروف داستان گو دانش حسین سے خصوصی مکالمہ


س۔ آپ نے فنِ داستان گوئی کے دوران کلاسیکل داستانوں سے لے کر سدا بہار قصے کہانیوں اور معروف شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہیں تو کس قسم کے کلام کو داستان گوئی کے ذریعے پیش کرنے میں مزا آتا ہے؟

ج۔ ہر مضمون کا اپنا ا یک الگ مزا ہے مطلب جیسے اب میں پاکستان میں پرفارم کر رہا ہوں تو بہت سے لوگوں کو داستانِ امیر حمزہ اور طلسمِ ہوش رُبا اور جو روایتی داستانیں ہیں ان سے حاضرین کو بہت لطف آ رہا تھا کیونکہ اس میں زبان کی چاشنی ہے، محاورے کی چاشنی ہے اس میں ایک جو موسیقیت ہے تال ہے زبان کی، ایک لطافت ہے زبان کی، وہ آپ کو سننے کو مل رہی ہے۔ لیکن جیسے ہی میں منٹو کی داستان پر آیا ایک موضوعاتی چیزہے ایک سیاسی بیان ہے ایک چبھتا ہوا طنز تو اس کی نوعیت الگ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا مزا کم یا زیادہ ہو جائے گا یا اپنی معنویت کھو دے گا یا یہ فرض کیا جائے کہ اچھا بھئی نہیں اس اسکیل کے اوپر یہ دس یا آٹھ ہے وہ اتنا Cardinal اتنا Linear نہیں ہے مزا کہ ہم اس کو اس طرح سے ماپیں یہ بہت ہی پیچیدہ اور موضوعی سا معاملہ ہے وہ کس وقت آپ کے حواس کو کیا پسند آ رہا ہے؟ کسی وقت ہو سکتا ہے ایک لطیفے پر آپ کو ایک وقت بہت ہنسی آئے دوسرے وقت آپ کو لگے بھئی ہی نہایت ہی معمولی سا ہے ہاں اب ہم ایک شعر لکھتے ہیں ایک نظم لکھتے ہیں لکھنے کے بعد تو ہمیں لگتا ہے کہ بس اب ہم غالب کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جب صبح اُٹھ کر وہ نظم پڑھتے ہیں۔ تو لگتا ہے کہ کیا بکواس ہے کسی کو دکھلا بھی نہیں سکتے ہیں تو وہ نوعیت جو ہے انسان کی بدلتی رہتی ہے۔

س۔ آپ نے چند فلموں میں بھی کام کیا جن میں خاص طور پر ”پیپلی لائیو“ میں آپ کی پرفارمنس قابلِ ذکر تھی تو یہ تجربہ کیسا رہا؟ اور کیا مستقبل میں بھی اس کو جاری رکھنے کا ارادہ ہے؟

ج۔ ہاں ابھی میری مارچ میں ایک فلم آئی تھی۔ ہندوستان میں ”آنکھوں دیکھی کر کے“ رجت کپور نے ڈائریکٹ کی تھی اور میں اس میں اداکاری کر رہا تھا اور فلم میرا مطلب ایساکوئی ارادہ تھا اور وہ نہ میں نے کبھی ترک کیا تھا نہ میں نے گلے لگا تھا تو اگر جس وقت کوئی اچھا رول آئے گا۔ تو میں بالکل اس کو اچھے سے قبول کروں گا اور ویسے بھی مجھے نصیر الدین شاہ بھائی اس کا ایک فارمولا بتا گئے ہیں کہ بھئی یا تو دیکھو رول اچھا ہے تب قبول کر لینا اگر نہیں تو پیسے تمہیں بہت زیادہ دے رہے ہوں تب کر لینا تو میں ِاسی اصول پر ہوں ابھی تک تو اللٰہ کے فضل سے رول اچھے ہی مل رہے ہیں اب میں سوچ رہا ہوں کہ وہ دور بھی آئے کہ کوئی کہے کہ پیسے لے لیجیے۔

 اب پیسے لیں تو میں واہیات، بے ہودہ قسم کے رول کرنا شروع کردوں ایسا نہیں ہے کہ میں نے کوئی بڑے عزت دار رول کیے ہیں۔ کسی میں، میں کوئی Drugs بیچ رہا ہوں یہ ہی سب رول کیے ہیں میں نے کیونکہ وہی سب رول کیے ہیں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ میں سینما کے لئے دستیاب ہوں لیکن ایک چیز یہ ہے کہ مطلب زیادہ تو نہیں میں نے 3 یا 4 فلموں میں کام کیا ہے لیکن جو بھی کام کیا ہے اس سے مجھے یہ سمجھ میں آیا ہے کہ سینما جو ہے وہ ڈائریکٹر کا میڈیم ہے و ہ ایکٹر کا میڈیم نہیں ہے دراصل ایکٹر جو ہے وہ بہت زیادہ متحرک ہے۔ اگر میں ایمانداری سے بات کروں تو اداکار بنیادی طور پر ایک چلتا پھرتا Prop ہے

میری ایک کہانی ہے میں اسے پیش کرنا چاہ رہا ہوں یہ میں نے فریم سوچاہے اور اس فریم میں کیا کیا آنا چاہیے اس میں ایک اداکار بھی کھڑا ہے تو اب میرے خیال میں حالانکہ میں نے ابھی سوچا نہیں ہے

But may be at some stage، instead of telling a story on stage I may just tell a story on screen

  اور اُس وقت

You know I may just end up directing the movie or producing the movie but that‘s a long shot you know۔ I am not immediately thinking about it۔

س۔ حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں بھی فنِ داستان گوئی کو فروغ حاصل ہوا ہے خاص طور پر کراچی میں NAPA میں اس فن پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ج۔ میری تو بہت اچھی رائے ہے میں بہت خوش ہوں 2011ء میں مجھے یاد ہے میں NAPA میں آیا تھا میں انہوں نے مجھے ایک لیکچر دینے کو کہا تھا داستان گوئی پر تو میں NAPA میں گیا تھا 2011ء میں، میں نے ایک داستان گوئی پر لیکچر دیا تھا اور یہ فواد اور نذرج جوNAPA کے لڑکے ہیں تو بعد میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ Actually جب انہوں نے پہلی بار وہ لیکچر سنا تھا تو ان کو کچھ خیال آیا کہ داستان گوئی کیا ہوتی ہے اور اس سے ان کو یہ لگا کہ یہ کچھ ایسی چیز ہے جس کے فراق میں ان کو پھرنا چاہیے۔

 کچھ کرنا چاہیے، تو ایک طرح سے ایک ذریعہ بنا وہ لیکچر اور ایسا ذریعہ بنا کہ وہ تین سال بعد اسٹیج پر اس کو پرفارم کر رہے ہیں مجھے یاد ہے 2011ء میں ہم ستمبر میں NAPA گئے بھی تھے محمود اور میں اور ہم نے پرفارم بھی کیا تھا وہاں پر اور وہ پرفارمنس بھی دیکھی تھی تو یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اردو زبان تو آپ کی سرکاری زبان اور آپ کے ہاں اگر دو لوگ داستان گوئی کر رہے ہیں اور اس کے دیکھ کر اگر اور لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ لوگ بھی داستان گوئی سیکھتے ہیں تو میرے خیال میں اس سے اچھی بات تو ہو ہی نہیں سکتی اور اگر یہاں دو چار پانچ داستان گو پیدا ہو جائیں گے تو پھر ہم بھی کہہ سکیں گے وہاں اپنے ملک میں بھئی انٹرنیشنل آرٹ فارم ہے آپ یہ نہ سمجھیئے کہ ہم دو آدمی یہاں کنوئیں میں بیٹھے کر رہے ہیں ادھر بھی کچھ چار پانچ لوگ کرتے ہیں۔ اور Art Form کا تو احیا اور اس کی بقا تبھی ہو سکتی ہے کہ جب اور لوگ بھی کریں۔

اگر دو لوگ ہی کرتے رہیں اور ختم ہو جائے تو پھر وہ تو ختم ہو جائے گا تو Art Form کا احیا تو تبھی ہو گا کہ جب آج سے 20 سال کے بعد 400۔ 500 داستان گو پوری دنیا میں الگ الگ جگہوں پر داستان سنا رہے ہیں اور پھر اس میں کہیں کہ نہیں بھئی اس میں جان ہے۔ یہ دو لوگ، یہ چار لوگ یا دس لوگ یا یہ دس داستان گو بہت عمدہ ہیں تو تب مزا آئے گا۔

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz