80 برس قبل جالندھر کا انگریز ڈپٹی کمشنر، وفادار تحصیل دار اور محکوم رعایا


میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام ”سفری زندگی“ رکھا تھا۔ ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر اقتباس میں جالندھر (پنجاب) کی تحصیل نکودر کے مقامی تحصیل دار، اس کے ماتحت عملے اور معززیں علاقہ میں ایک معمولی رنجش کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ دو نکات پر غور فرمائیں۔ پہلا یہ کہ جالندھر کا انگریز ڈپٹی کمشنر اپنے ہندوستانی تحصیل دار کا رعب و دبدبہ قائم رکھنے میں کس قدر دلچسپی رکھتا تھا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ بابو غلام محمد مظفر پوری کو ڈپٹی کمشنر مذکور کے دفتر میں اپنی وفاداری جتلانے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے مقامی کانگرسی رہنماؤں کے طعنے کا ذکر کیا۔ مسلم لیگ کا نام نہیں لیا۔ واضح رہے کہ 1937 کے انتخابات منعقد ہو چکے تھے اور پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ جالندھر ضلع میں مسلم آبادی 50 فیصد کے قریب تھی۔ کیا اسے ایک نادانستہ تاریخی گواہی سمجھا جا سکتا ہے کہ انگریز کا حقیقی مخالف اور آزادی پسند گروہ کانگرس سے تعلق رکھتا تھا اور آزادی کی منزل کے قریب پہنچ جانے کے باوجود مقامی باشندے اور انگریز حکام مسلم لیگ سے برطانوی راج کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے۔

٭٭٭  ٭٭٭

1938 ء میں تحصیل دار صاحب نکودر اور دیگر جی حضوریوں میں جھگڑا ہو گیا۔ آخر افسران بالا تک شکایات پہنچ گئیں۔ جھگڑے کا آغاز اس طرح ہوا۔ حسب دستور تحصیل کا ماہانہ جلسہ تحصیل میں ہونے کے لیے ذیل دار اور سفید پوشان اور دیگر سرکاری اہل کار جمع تھے۔ تحصیل دار صاحب چند ایک لوگوں کے ساتھ اپنے گھر میں گفتگو کرتے رہے جس کی وجہ سے انتظار کرنے والے چوہدری صاحبان اکتا گئے اور بطور پروٹیسٹ اٹھ کر بازار کو چل دیے۔ بعد ازاں تحصیل دار صاحب کے بلانے پر واپس حاضر جلسہ نہ ہوئے۔ اس پر جناب تحصیل دار صاحب کو بہت برا معلوم ہوا کیونکہ گورنمنٹ انگلشیہ کے راج میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ ذیلدار صاحبان نے افسر مذکور کی مرضی کے خلاف باضابطہ طور پر خلاف حکم کارروائی کی ہو۔

ایک ماہ بعد جب دوبارہ عہدے دار صاحبان حاضر دربار ہوئے تو تحصیل دار صاحب نے خوب دھمکایا اور معافی مانگنے کو کہا لیکن عہدے دار صاحبان نے اپنے ضمیر و استقلال کو قائم رکھتے ہوئے معافی نامہ سے انکار کر دیا۔ نیز تحصیل دار صاحب کی دھمکی سے ذیل دار اور سفید پوشان میں دو پارٹیاں بن گئیں۔ زیادہ تر الزام چوہدری خیر دین اور بابو سمیع اللہ پر رہا یا میرے اوپر لگایا گیا کیونکہ میں بھی اس میٹنگ میں حاضر تھا اور ذیلدار صاحبان اور سفید پوشوں کو تحصیل دار کے رویے کے خلاف غیرت دلائی تھی۔ پس جھگڑا بجائے گھٹنے کے بڑھتا ہی گیا۔

ایک روز تحصیل دارنے چوہدری عبداللہ کو، جو کسی کام کے لیے کچہری گئے تھے، گالی گلوچ کیا جس سے معاملہ اور بھی بگڑ گیا۔ بعد ازاں تقریباً 17 معزز اشخاص نے ایک تحریری درخواست تحصیل دار صاحب کے خلاف جناب کمشنر صاحب جالندھر، جس کی نقول ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر اور فنانشل کمشنر لاہور کو روانہ کر دیں۔ جب درخواست افسران بالا کو ملی تو علاقے میں بہت شور و غل مچ گیا۔ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب تو حد سے زیادہ ناراض ہو گئے اور درخواست کنندہ حضرات کو مختلف قسم کی دھمکیاں دینے لگ گئے اور سزائیں دینے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ اسی سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب نکودر تشریف لائے اور تین عدد حکم نامے جاری کیے۔ ( 1) چوہدری سمیع اللہ کو جلسہ متذکرہ بالا میں آئندہ جانے سے منع کیا (2) مجھے بھی جلسے میں جانے سے روکا کیونکہ ہم ہر دو ذیلدار اور سفید پوش نہیں تھے (3) چوہدری خیر دین کو سربراہی سے الگ کر دیا تاوقتیکہ وہ اپناچال چلن ٹھیک نہ کر لے۔

میں نے تو اس چٹھی کی چنداں پروا نہ کی لیکن دیگر چوہدری صاحبان کو بڑی فکر لاحق ہو گئی کیونکہ وہ سرکاری کارندے تھے اور آئندہ کے لیے بہت سی امیدیں اور امنگیں دل میں رکھے ہوئے تھے۔ چٹھی پہنچنے پر چوہدری عبداللہ اور چوہدری خیر دین صبح صبح آئے کہ ڈپٹی کمشنر نے چوہدری خیر دین کو سربراہی سے الگ کر دیا ہے۔ اس لیے تم ڈپٹی کمشنر سے جا کر ملو۔ میں نکودر گیا لیکن وہ وہاں سے جا چکے تھے۔ اگلے دن میں جالندھر ڈپٹی کمشنر صاحب کو ملنے گیا۔ چٹھی میں درج تھا تم نے تحصیل دار صاحب کے خلاف بہت حصہ لیا۔ اگر تم ملو میں تمھیں بتلاؤں گا۔ پس جب میں ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقاتی ہوا تو جو گفتگو میرے اور اس کے درمیان ہوئی وہ میں یہاں پر حرف بحرف نقل کرتا ہوں۔ وہ گفتگو انگلش میں تھی لیکن میں عام ناظرین کے لیے اردو میں تحریر کرتا ہوں۔

بعد سلام دعا کے بعد ڈی سی صاحب نے مجھ پر سوال کیا کہ تم نے تحصیل دار صاحب کے خلاف بہت حصہ لیا۔ میں نے جواب میں کہا کہ نہیں آپ کو مبالغہ لگا ہے۔ زیادہ نہیں ایک بٹا سترہ لیا کیونکہ درخواست میں میرا سترہواں نمبر ہے۔ دوسرا سوال تھا آپ اس میٹنگ میں کیوں گئے جب کہ آپ ذیلدار ہیں نہ سفید پوش۔ وہ میٹنگ صرف سرکاری اہل کاروں کی ہوتی ہے۔ جواب دیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ میٹنگ صرف سرکاری اہل کاروں کے لیے ہے کیونکہ وہاں پر کوئی نوٹس یا منادی اس کے متعلق نہیں تھی۔ تحصیل کا علاقہ عام پبلک جگہ ہے اس لیے میں بھی بہت سے ہم جنس اشخاص دیکھ کر شامل ہو گیا لیکن میں نے کارروائی میں کوئی دخل نہیں دیا۔ ہاں اگر میٹنگ پرائیویٹ تھی تو بند کمرے میں ہونی چاہیے تھی نا کہ باہر کھلی جگہ پر۔

( 3) اس نے کہا میں سب درخواست کنندگان کو یک بعد دیگرے مختلف سزاؤں سے سدھار دوں گا۔ اس کے جواب میں میں نے کہا دیکھیے جناب یہ سرکاری عہدے دار صاحبان مشین کے پرزے ہیں۔ اگر مشین میں سے ایک پرزہ بھی خراب ہو جائے تو تمام کی تمام مشین خراب ہو جاتی ہے چہ جائیکہ آپ سترہ اشخاص کو سزائیں دیں گے۔ اس وقت آپ کی کیا حالت ہو گی جب آپ ایک ذمہ دار افسر ہوتے ہوئے بغیر تحقیق اور بغیر سوچے سمجھے ایسی کارروائی کرنے لگ گئے جو قانون اور عقل کے بھی سراسر خلاف ہے۔ آپ کو چاہیے تھا کہ پہلے معاملے کی تحقیقات کرتے جس کو قصور وار سمجھتے اس کو متنبہ کرتے۔ اگر وہ پھر بھی باز نہ آتا تو سزا دیتے۔ لیکن آپ نے بغیر کسی تحقیقاتی کارروائی کے سزا دینی شروع کر دی جس کا شکار چوہدری خیر دین ہو چکا ہے۔ میرے ان الفاظ پر ڈی سی نے کہا نہیں، میں نے اس کو صرف دھمکی دی اور معطل نہیں کیا، میں نے عرض کیا جناب نکودر کے کانگرسی رہنما خوب خوش ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب سرکاری اہلکار یعنی ذیلدار اور سفید پوش حکومت سے نکالے جانے پر ہماری طرف آ رہے ہیں۔

( 4) جب دوسری میٹنگ میں تحصیل دار نے ان اشخاص سے معافی مانگی تھی تو پھر انھوں نے تحصیل دار سے سمجھوتہ کیوں نہیں کیا۔ اس کے ثبوت میں صاحب بہادر ایک خاکی کاغذ الماری سے نکال کر لائے جو تحصیل دار کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور کہا جب وہ تحصیل دار صاحب کے ماتحت تھے تو اس افسر سے راضی نامہ کر لینا چاہیے تھا۔ جواب میں کہا میں دوسرے جلسہ میں نہیں تھا لیکن جہاں تک میں نے سنا ہے تحصیل دار نے بجائے معافی مانگنے کے ان لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جیسا کہ آپ بھی اپنے ارادہ کی بابت ابھی ابھی کہہ چکے ہیں۔ جو کاغذ مجھے دکھلاتے ہو اس کے ٹھیک یا صحیح ہونے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے جب کہ اس پر کسی دوسرے شخص کے دستخط اور گواہی نہیں ہے۔ سوائے درخواست کنندگان کے اور بھی بہت سے ذیلدار وغیرہ اس حاضر جلسہ تھے۔ کیا ان میں سے کسی ایک کے بھی دستخط اس کاغذ پر نہیں ہیں؟ یہ کاغذ صرف تحصیل دار کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جو ہر لحظہ اور ہر وقت اپنی مرضی کے مطابق لکھ سکتا ہے۔ میرے اس جواب اور سمجھانے پر صاحب لاجواب اور خاموش ہو گیا۔

(5) آپ ان سب کے درمیان صلح صفائی کرا دو یا وہ خود تحصیل دار کے مکان پر جا کر صلح کر لیں۔ میں نے جواب دیا آپ افسر اعلیٰ ہیں، آپ ہر دو کی صلح صفائی کرا دیں اور آپ کا کہنا بھی اچھا اثر کرے گا۔ تحصیل دار صاحب کے مکان پر جانے سے وہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ معاملہ الٹا اور بڑھ جائے اور تحصیل دار صاحب ان سے گالی گلوچ سے پیش نہ آئیں۔ سنا ہے کہ تحصیل دار صاحب بڑے غصے والے اور تیز مزاج ہیں۔ میرے اس جواب پر ڈپٹی کمشنر نے کہا میں ان کو یہاں نہیں بلا سکتا کیونکہ وہ لوگ آخر تحصیل دار کے ماتحت ہیں۔ اس طرح بلانے پر تحصیل دار صاحب کی شان اور رعب میں فرق آنے کا احتمال ہے۔ میں تحصیل دار کو اچھی طرح سمجھا دوں گا کہ ان کے ساتھ اچھی طرح سلوک کرے جب وہ لوگ صلح کرنے اس کے مکان پر آئیں۔ میں نے عرض کیا جناب آپ کو یا تحصیل دار صاحب کو ان عرضی کنندگان سے صلح اور راضی نامہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ان میں سے 99 فی صد سرکار کی وضع دار بھیڑیں ہیں۔ میرے ان الفاظ پر ڈی سی کہنے لگا تم ان بھیڑوں میں کیوں شامل ہوئے۔ میں نے جواب میں کہا میں نے صرف پبلک اور کاشت کاروں کی طرف سے دستخط کیے ہیں۔ ہم زمینداروں کو تحصیل دار سے بہت سی تکالیف اور شکایات ہیں جن کاا گر آپ ثبوت مانگیں تو جتنی گواہیاں آپ طلب کریں، میں پیش کر سکتا ہوں۔

(6) ڈی سی نے کہا کہ عرضی کنندگان میں سے سردار نرندر سنگھ نے میرے پاس آ کر کہا کہ میں نے عرضی پڑھ کر دستخط نہیں کیے تھے بلکہ دھوکے سے کرا لیے گئے۔ میں نے جواب دیا سردار نرندر سنگھ تعلیم یافتہ اور ڈسٹرکٹ کونسل کا سینیر وائس پریذیڈنٹ ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ وہ بغیر پڑھے ایسی کسی درخواست پر دستخط کر سکتا ہے۔ نیز اگر کوئی شخص کسی ڈاکیومنٹ پر دستخط کرنے کے بعد روبروئے دیگر گواہان عدالت میں انکاری ہو جائے تو کیا عدالت اس کی اس لاعلمی اور انکار پر یقین کر لے گی۔ ہرگز نہیں۔ بابو سمیع اللہ نے آپ سے جو کہا کہ راعی قوم کا رہنما ہوتے ہوئے مجبوراً دستخط کیے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ یہ ہوشیار لوگ آپ کو اور خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ان کی مثال تو ویسی ہے جیسا کہ پنجابی کہاوت ہے: کسی نے بیل سے پوچھا بھئی بڑھک مارتے ہو اور چھلکتے بھی ہو۔ جواب دیا بڑھکتا تو اس لیے ہوں کہ لڑنے بھڑنے کو جی چاہتا ہے۔ چھلکتا اس لیے ہوں کہ ڈر لگتا ہے۔

آخر کار گفتگو کے درمیان میری زبان سے کچھ ایسے الفاظ نکل گئے جس پر ڈی سی صاحب کہنے لگے میں ایسی دھمکیوں اور پروپیگنڈہ سے نہیں ڈرتا۔ جاؤ جہاں تک تمھارا زور لگے لگا لو۔ اس پر میں یہ کہتا ہوا اٹھ کر چل دیا کہ بہت خوب۔ جس قدر ہم سے ہو سکا ہم اپنے بچاؤ کے لیے راہ اختیار کریں گے۔ جب میں دروازے کے پاس پہنچا تو صاحب بہادر نے پھر مجھے بلا کر بٹھا لیا اور کہنے لگے بہتر یہی ہے کہ آپ سب صاحبان تحصیل دار صاحب سے صلح کر لو، اگر کوئی غلطی یا زیادتی تحصیل دار صاحب سے ہو گئی ہے تو اسے دل سے بھلا دو۔ میں، یعنی ڈی سی، آج ہی جا کر تحصیل دار صاحب کو مجبور کروں گا اور حکم دوں گا کہ وہ راضی نامہ کرنے کی کوشش کرے۔ بعد ازاں سنا گیا کہ ڈی سی اپنے وعدے کے مطابق اسی روز شام کو نکودر آیا اور تحصیل دار صاحب کو الگ لے جا کر نصیحت وغیرہ کرکے واپس چلا گیا۔ جس کے چند روز بعد تحصیل دار صاحب نے بذریعہ سب جج نکودر، جو کہ سکھ تھا، صلح و راضی نامہ کی کوشش کی اور ہم سب کے درمیان برمکان سب جج آپس میں راضی نامہ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).