آپ اپنی بیٹی کی تعلیم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟


 

ہر انسان کی زندگی میں چند دن ایسے ہوتے ہیں جو بہت یادگار ہوتے ہیں۔ کسی کے لیے شادی کا دن‘ کسی کے لیے بچے کی پیدائش کا دن‘ کسی کے لیے پہلی نوکری حاصل کرنے کا دن اور کسی کے لیے ہجرت کرنے کا دن یادگار ہوتا ہے۔

میں جب اپنے ماضی کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو میری زندگی کے یادگار دنوں میں سے ایک دن وہ تھا جب میری بھانجی وردہ نے ڈگری حاصل کی تھی۔

میری عمر میں چھوٹی لیکن محبت میں بڑی بہن عنبر نے جب مجھ سے کئی سال پیشتر پوچھا تھا کہ سہیل بھائی آپ نے بچے کیوں پیدا نہیں کیے تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ آپ یوں سمجھیں کہ آپ کے چار بچوں میں سے دو آپ کے ہیں اور دو میرے ہیں۔ اتفاق کی بات کہ عنبر کے دو چھوٹے بچے میرے پاس کینیڈا آ گئے۔ پہلے میرا بھانجا زیشان میرے ساتھ چار سال رہا۔ وہ بالکل میرے بیٹے کی طرح تھا۔ جب اس کی انجیرنگ کی گریجوئیشن پر عنبر کینیڈا آئیں تو انہوں نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی وردہ کو میرے پاس چھوڑ دیا۔ وردہ بھی میرے ساتھ چار سال رہی۔

وردہ سے ساتھ رہنا میری زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ہم دونوں شام کے ڈنر کے بعد کافی دیر تک زندگی کے نفسیاتی اور سماجی‘ مقامی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں تبادلہَ خیال کرتے رہتے۔ پہلے وہ میری بھانجی‘ پھر بیٹی اور آخر میں دوست بن گئی۔ وردہ کے ساتھ رہنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی اپنے بھائی اور ماموں کی طرح بہت غیر روایتی سوچ اور شخصیت کی مالک ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ غیر روایتی سوچ رکھنے والے لوگوں کو زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اسے اپنے شاعر چچا عارف ؔ عبالمتین کا شعر بھی سنایا

میری عظمت کا نشاں‘ میری تباہی کی دلیل

میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو

وردہ کے ساتھ چار سال گزارنے کی جو خوشگوار یادیں میرے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں ان میں سے ایک یاد وہ دن ہے جس دن اس نے ڈگری حاصل کی تھی اور میں نے اس کی GRADUATION CEREMONY میں شرکت کی تھی۔اس شام میں نے ایک نثری نظم لکھی تھی جو میں آپ کے ساتھ شیر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ بھی اپنی بیٹی کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر سکیں۔

 

                                    عورت کی ڈگری اور چار نسلیں

آج ایک اہم دن ہے

آج میں بہت خوش ہوں

آج میری بھانجی وردہ کی کونووکیشن ہے

میں بڑے فخر سے اس تقریب میں شرکت کر رہا ہوں

وہ گائون پہن کر

سٹیج پر ڈگری وصول کر رہی ہے

اور میں سوچ رہا ہوں

میری نانی سرور کی تعلیم دو جماعتیں تھی

وہ صرف اپنا نام لکھ سکتی تھیں

میری والدہ عائشہ نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی

انہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن

ان کے روایتی والد اور بھائی نے کہا

تم نے شادی کرنی ہے

بچے پیدا کرنے ہیں

کھانا پکانا ہے

سلائی کرنی ہے

زیادہ پڑھائی نہ کرو

رشتہ ملنا مشکل ہو جائے گا

میری بہن عنبر کی تیرھویں جماعت میں شادی کر دی گئی

اسے سسرال بھیج دیا گیا

وہ بچے پالتی رہی اور ساری عمر

حور‘ ’زیبالنسا‘ اور ’خواتین ڈائجسٹ‘ کے افسانے پڑھتی رہی

وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکی

میری بھانجی وردہ کینیڈا میں چار سال میرے ساتھ رہی

وہ کالج گئی

اس نے بڑی محنت سے ڈگری حاصل کی

آج میں

اس کی گریجوئیشن کی تقریب میں شرکت کر رہا ہوں

اور سوچ رہا ہوں

ہمارے خاندان میں

عورت کو ڈگری حاصل کرنے میں

چار نسلیں لگ گئی ہیں

وردہ بخوبی جانتی ہے

اس کی ڈگری وہ کنجی ہے

جس سے اس کے لیے

زندگی کے بہت سے دروازے کھل جائیں گے

 

 

 

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail