ہیں نمازیں میری سبھی پوری فرضِ انسانیت قضا ہوا ہے


زندگی کیا ہے! پیدائش اور موت کے درمیان گزرا ہوا ایک قلیل وقت۔ زندگی کی ابتدا بھی دوسروں کے سہارے ہے اور اختتام بھی دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ انسان پیدا ہونے کے بعد ماں کی گود سے لے کر زمیں پر چلنے تک ماں باپ پر انحصار کرتا ہے۔ مرنے کے بعد چار کندھوں پر قبرستان تک جانے کے لیے وہ لوگوں کا محتاج ہے۔ چار پاوّں سے چلنا سیکھنے والا انسان جن دو پاوّں پہ کھڑا ہو جا تا ہے تو وہ دنیا کو تسخیر کرنے لگتا ہے اور تب تک دنیا میں اپنی ذہانت اور طاقت کے بَل بوتے پر راج کرتا ہے جب تک کہ وہ لاٹھی لے سہارے پر نہ آجائے۔

دو قدموں پر کھڑا ہونے کا دورانیہ گو کہ انتہائی کم ہے مگر انسان اسے ہی زندگی کہتا ہے اور اپنے مقصدِ پیدا ئش کو بھول کر ظلم پر اُتر آتا ہے۔ یہ ظلم نہ صرف وہ دوسروں کے ساتھ روا رکھتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بھی کرتاہے۔ ظلم و زیادتی کرتے کرتے وہ قبر کے اندھیرے گڑھے میں جا پہنچتا ہے۔ جب تک انسان دو قدموں پر کھڑا ہے وہ زندگی کو گزار رہا ہے۔ زندگی کو گزارنا بھی ایک فَن ہے ایک آرٹ ہے۔ زندگی کو خوب گزارنا چاہیے ورنہ یہ تو انسان کو گزار ہی دیتی ہے۔ انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ فلسفہ کچھ بھی کہے مگر میرے خیال میں مقصدِحیات معبودیّت اور محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

مذہب ہر انسان کو زندہ رہنے کا فَن سکھاتا ہے۔ کیسے معبودِ واحد کو پہچاننا ہے، کیسے اس کی عبادت کرنی ہے، کیسے زندگی گزارنی ہے، عقیدہِ آخرت اور یوم الحساب وغیرہ وغیرہ۔ لیکن تمام مذاہب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے انسانیت سے محبت۔ تمام مذاہب کو پڑھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ربِ کائنات کو واحد اور لا شریک ماننے کے بعد جو فرض لوگوں پر عائد ہوتا ہے وہ ہے : ایک پُرامن معاشرے کا قیام۔

(To Create a peaceful society)

مذہبی عقائد کو پورا کرنا فرض اور قابلِ جواب ہے مگر وہ ہمارا انفرادی عمل ہے۔ لیکن اگر تمام انفرادی عبادات کے باوجود ہماری معاشرت ٹھیک نہیں ہے تو پھر اِن عبادات کا فائدہ خدا بہتر جانتا ہے کہ ہوگا بھی یا نہیں۔ کیونکہ حج کرنے والے کو حاجی، نماز پڑھنے والے کو نمازی و پرہیزگار، زکوٰۃ دینے والے کو سخّی کا خطاب تو شاید معا شرے میں مِل جائے مگر حقِ انسانیت ادا نہیں ہو پائے گا۔ یہ تمام عبادات کا مقصد پُرامن معاشرت کا قیام ہے۔

خدا سے پیار کا طریقہ خدا کی مخلوق سے پیار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر حقوق العباد نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق سے سترّ ماوّں سے زیادہ پیار کرتا ہے، کیا وہ پسند کرے گا کہ کوئی مخلوق اس کے پیارے انسان پر ظلم ڈھائے، اس لے لیے مشکل پیدا کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے، ہرگز ہیں، کبھی بھی نہیں۔ اصل جینا تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مانتے ہوئے اس کی مخلوق سے پیار اور خدمت کر کے جینا ہے۔ اگر ہم اپنی بنائے ہوئی عبادات کے چکر میں معاشرت خراب کر بیٹھے تو یقین کیجیے ہم اللہ تعالیٰ کو یقیناً جواب دہ ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم روزِ قیامت کہہ رہے ہوں۔

ہیں نمازیں میری سبھی پوری فرضِ انسانیت قضا ہوا ہے ؔ

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارہ معاشرہ اس کے با لکل بر عکس منظر پیش کرتا ہے۔ ہم لوگ ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمیں زندگی کا مقصد ہی کچھ اور بتایا گیا ہے۔ ایک منظر ابھی کچھ دن پہلے سڑکوں کو بلاک، وطنِ عزیز کی املاک کو نقصان، اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں، بچوں، بزرگوں اور مسافروں کو ذلیل کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں دیکھنے میں آیا ہے۔ ہمارے نبی آخری الزمان حضرت محمد ﷺ نے راستے سے پتھر ہٹانے کو ثواب کا درجہ دیا ان سے محبت کا اظہار مسافروں کے راستے بند کر کے کرنا میری سمجھ سے باہر ہے۔

وہ نبی ﷺ جن پر ایک کافر بوڑھی عورت روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکتی ہے جب وہ ایک دن بیمار ہو جاتی ہے تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں، اُن کا درس تا محبت اور صرف محبت ہے۔ یہ فسادات برپا کر کے ہم ناصرف دوسرے ممالک کو بلکہ اپنے بچوں کو کیا درس دے رہے ہیں۔ محبت کے پیغام کو نفرت میں بدلا جا رہا ہے۔ مذہب کا عملی نمونہ تو ہماری زندگیوں میں نظر آنا چاہیے۔ چار چار عمرے اور حج کرنے والے کا بھائی، بہن، رشتہ دار یا ہمسایہ اگر بھوکا ہے تو اسے صرف اپنے نام کے ساتھ الحاج لکھنا نصیب ہو گا اللہ تعالیٰ اور نبی آخری الزمان حضرت محمد ﷺ کی خوشنودی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ کی خوشنودی تو اس کے بندوں اور امت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں ہے۔

بوڑھے ماں باپ کو پیار کی نظر سے دیکھنے والے کو مقبول حج کا ثواب دینے والا دین کب کسی انسان کو دکھ دینے کی اجازت دے سکتا ہے۔
پانی کا قطرہ ضا ئع کرنے سے منع کرنے والا مذہب کب کسی کا راستہ بند کرنے کو کہے گا۔
السلام و علیکم (آپ پر سلامتی ہو) کہنے والا دین کیسے کسی کو قتل اور ظلم کی اجازت دے سکتا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنوں! غلطی ہم سے ہوئی ہے جو کہ ہم اپنے دین کی روح کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ ہمارے دین کے ٹھیکیدار کچھ غلط لوگ بن بیٹھے اور بڑی چالاکی کے ساتھ معصوم اوردین کا کم علم رکھنے والے لوگوں کے ذہنوں میں دین کا غلط مفہوم ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ محبت اور عزت کا دین ہے۔ اس کی روح کو سمجھیں۔ یہ نہ ہو نمازیں پوری کرتے کرتے انسانیت کی معراج سے نیچے گر جائیں اور روزِ قیامت ربِ کائنات لے سامنے شرمندگی کا سا منا ہو اور پتہ یہ چلے کہ جو نصاب ہم پڑھتے رہے ہیں وہ غلط تھا۔

عزت احترام کو معا شرے میں فروغ دیں۔ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں۔ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ انصاف سے کام لیں۔ یہی انسانیت کی معراج ہے۔

بقولِ شاعر۔ ۔
خدا خود پیار کرتا ہے محبت ایک عبادت ہے
یہ ایسا خواب ہے جس خواب کی تعبیرجنت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).