اس آگ پر پانی ڈالیں، پانی!


بارے ذکر کچھ مذہبی اقلیتوں کا۔ آج وطن عزیز کی مسیحی آبادی کا کچھ ذکر اذکار ہو جائے۔ اپنے ملک کے مسیحی دو بڑے طبقات میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہیں میں یہاں اسلام آباد میں آئے دن سیمیناروں، مجالس و مباحث میں دیکھتا سنتا رہتا ہوں۔ یہ لوگ ایوان ہائے اقتدار میں بڑی مضبوطی سے پنجے جمائے ہیں۔ یہ لوگ این جی اوز میں ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ کاروباری افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات، لیکن کم کم، یہ لوگ سرکاری مناصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔

ان کا لب و لہجہ، طنطنہ، تعلّی اور رویہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ حرف آخر قسم کا قابل گرفت تو نہیں ہوتا لیکن قابل ذکر، قابل توجہ، لائق التفات ضرور ہوتا ہے۔ یہ لوگ مغربی ممالک کے سفارت کاروں سے خوب متعلق ہوتے ہیں۔ اگر کسی این جی او وغیرہ کے عہدے دار ہوں تو نہ صرف ان کے پو بارہ بلکہ مفادات کے اسیر سرکاری افسران، آزاد خیال چار جماعتیں پڑھے لکھے پاکستانی مسلمان بھی ان کی زلف کی گرہ کے اسیر۔ اسیر ہوں نہ ہوں، گلرنگ صہبا ہو، یعنی سرخ گلاب والے رنگ میں، بالخصوص کہ جب شیشہ افرنگ میں ہو تو کیا کہنے۔

مسیحی برادری کے یہ افراد بڑی خاموشی سے اور سکوتِ گور کے مثل خاموشی کے ساتھ ہر آنے والے دن میں اس مملکت خداداد کے اندر اپنے پاؤں دن بدن پھیلاتے جا رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ حکومتی عہدے داروں ہی کی بڑی تعداد نہیں حزب اختلاف، جو بھی ہو، بھی ایک مناسب وقفے سے عورتوں اور اقلیتوں کے حق میں بیان دینا اپنے ایمان کا حصہ قرار دے چکی ہے۔ اور اب تو نوبت یہاں تک جا بیٹھی ہے کہ کالم نویسوں کی بڑی تعداد بھی اسی قریے میں آباد ہو چکی ہے۔

لیکن۔ ! لیکن۔ ان بے چاروں کو کیا الزام دوں، انہی جیسا لب و لہجہ، طنطنہ، تعلّی اور حرفِ آخر قسم کا رویہ آپ اپنے ان متشرع مسلمان جنتیوں میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں جو کسی عرب سفارت کے سات پھیرے مکمل ہو چکے ہوتے ہیں، جی ہاں بار بار کہہ چکا ہوں آئیندہ بھی کہتا رہوں گا: سرمایے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور سرمایے کا نعرہ بس یہی ہے :

کیا اِمامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو

مسیحی افراد کی ایک دوسری قسم وہ ہے، جسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے کافی دشوار ہے۔ اللہ کی یہ تہی دامن وتہی دست مخلوق وہی فصل ہے جس سے اوّل الذکر زمرے کے مسیحی لوگ ہر پانچ سال بعد فصلانا وصول کرتے ہیں۔ اوّل الذکر مسیحی لوگ اللہ کی اس تہی دامن وتہی دست مخلوق کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بنانے کے سبز، کالے، نیلے باغ دکھا دکھا کر انہی سے آج اکیسویں صدی میں بھی انسانی فضلہ اٹھواتے ہیں۔ پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ مسیحی لوگ اس قدر بے چارگی کے شکار، بے بس، مجبور، لاچار، نان جویں کو ترسے ہوئے اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں۔ لیکن ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کا وزیراعظم اور صدر نہ بن پانا ہے۔ قارئین کرام! میں پوری جرأت اورپورے اعتماد اورپوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اس دوسرے زمرے کے تہی دامن وتہی دست مسیحوں سے توہینِ رسالت، توہینِ مذہب تو کیا توہین آدمیت بھی ناممکن ہے، قارئین کرام! ناممکن۔

غالباً دس پندرہ سال قبل کے اخبارات میں پڑھا تھا کہ چراٹ، صوبہ خیبر کے کسی گاؤں میں خان صاحب تھکے ہارے گھر داخل ہوئے، کھانے میں دیر ہو گئی، توتکار سے معاملہ چخ چخ تک جا پہنچا۔ خان صاحب نے بیوی پر ہاتھ اٹھایا تو اس نے اللہ رسول کا واسطہ دیا۔ میں آپ کسی گرما گرم مباحثے میں مستغر ق ہوں اورکوئی آ کر کہہ دے کہ صاحب آپ کا فون ہے تو مباحثے کا کوئی ایک فریق جھلا کر کہہ اٹھتا ہے : یار فون کو گولی مارو! بھوک سے بلبلاتے ان خان صاحب نے بھی بیوی کے اللہ رسول کا واسطہ دینے پر بلا سوچے سمجھے رواروی میں ایسے ہی کوئی کلماتِ ناروا اللہ رسول کے بارے میں کہہ دیے۔

محلے میں سننے والے تماش بینوں میں سے کسی نے مسجد کا آلہ مکبرالصوت کھول کر اعلان کر دیا کہ خان صاحب نے اللہ رسول کے بارے یہ کچھ کہا ہے، وہ مرتد ہو گیا ہے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ آگے آگے خان صاحب اور پیچھے پیچھے سپاۂ ناموسِ مذہب۔ مرتد خان صاحب جان بچانے کسی درخت پر چڑھ گیا تو تھوڑی دیر بعد گولیوں سے چھلنی اس کا تن مردہ درخت کی شاخوں میں جھول رہا تھا۔

موجودہ مشاعرے میں جو دو غزلے سہ غزلے سننے کو مل رہے ہیں، ان کا مصرعہ طرح وہی چراٹ کے گاؤں والا ہے۔ آگے کی اللہ جانے اللہ۔ میری فریاد البتہ ان تمام پاکستانیوں سے ہے جو پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ ذرا غور کریں۔ واقعے کی ابتدا سے لے کر آخر تک، تا ایں دم واقعات کا بہاؤ ایک ہی تسلسل سے اور ایک ہی رخ پر ہے جس کے دو کنارے ہیں۔ وہ دو کنارے جن کا ملن تبھی ممکن ہے جب ندی کا پانی خشک ہو جائے۔

اک طرف ہنگامہ اہلِ ہوس اور ہاؤ ہو
اک طرف اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو!

اس ہنگامہ اہلِ ہوس میں کیا اِمامانِ سیاست اور کیا کلیسا کے شیوخ سبھی برہنہ پا، برہنہ بدن، پوجا کیے جا رہے ہیں تو نفس امارہ کی۔ مقامی سطح کے ایک معمولی سے واقعے نے وہ عالمی شہرت حاصل کی کہ توبہ ہی بھلی۔ کسی سے توہینِ رسالت ہوئی یا نہیں، گواہان اور منصف کا مسئلہ ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے کے لیے 31 اکتوبر ہی کے دن کا چناؤ کیا تو کیوں کیا؟ اس سے غازی علم الدین شہید کی برسی منانے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا عندیہ ملتا ہے یا اس کے برعکس والے کیمپ کے کندھے سے کندھا ملانے کا پیغام لا سلکی انداز میں بھیج دیا گیا ہے۔

رہی فیصلے میں آیات و احادیث کی بھرمار تو عرض ہے : کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستان۔ یہ اندازِ گفتگو آج کل بہت پرانا ہو گیا ہے۔ وقوعہ کا مدعی تو بے چارہ دو رکعت کا امام ہے۔ کشکول میں ملنے والی دو روٹیوں پر تعلیم حاصل کرنے والے اس بے چارے دو رکعت کے ملا میں ہٹیلا پن آیا سو آیا، اسے ہم کچھ دیر کے لیے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چاروں صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ سے تحریری درخواست کی تھی کہ فیصلے کو مؤخر کیا جائے، امن و امان کا مسئلہ ہے۔ ایک اور اطلاع کے مطابق یہی درخواست اسلام آباد انتظامیہ نے بھی کی لیکن 7 اکتوبر کو سنے جانے والے اس فیصلے کو عجلت میں 31 اکتوبر ہی کو سنانے کے لیے تاریخ مقررکرنے کی علت؟ باوجودیکہ چاروں صوبائی حکومتیں اور اسلام آباد انتظامیہ امن و امان کی دہائی دے رہی تھیں۔

فی الحقیقت اس سارے قضیے کو میں یوں لیتا ہوں کہ یہ واقعہ مقامی سطح پر سوات کی گل مکئی جتنا معمولی سا واقعہ تھا۔ اس میں توہینِ رسالت کا عنصر اتنا ہی تھا جتنا چراٹ والے خان صاحب کے وقوعے میں تھا۔ اس سارے قضیے میں کیا اِمامانِ سیاست کیا کلیسا کے شیوخ، سب نے مل جل کر اسے انا کا مسئلہ بنایا۔ سوات کی گل مکئی اب نوبل انعام یافتہ ملالہ بن چکی ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ جو کچھ ہوا نہایت بھیانک ہوا لیکن کس کو پتہ نہیں کہ مختاراں مائی کو معمولی معمولی مغربی حکومتوں ہی میں نہیں فرانس، برطانیہ اور امریکی وزراء کے درباروں میں پذیرائی حاصل ہوتی رہی ہے۔ اٹھارہ سالہ گل مکئی جو ابھی Hampty Dumpty سے ذرا آگے تھی، آج اس کی کتاب پاکستان کے روشن چہرے کو مسخ شدہ شکل میں پیش کرنے کا ایسا آلہ بن چکی ہے جسے آپ تمام یورپی ریلوے اسٹیشنوں، بس ٹرمینلوں اور ایئرپورٹوں کے تمام بُک اسٹالوں سے خرید سکتے ہیں۔

وہ سوچ جس نے علامہ اقبال کی نسبت سے 9 نومبر کی چھٹی مسلم لیگی حکومت کے اس وزیرداخلہ سے ختم کرائی جس کی علامہ اقبال کے خاندان کے ساتھ اب بھی مضبوط رشتہ داری موجود ہے (رشتہ داری والی یہ بات علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال صاحب نے 9 نومبر کی چھٹی ختم ہونے پر مجھے خود بتائی) ، وہی سوچ اب پیش قدمی کرتے کرتے عدالت عظمیٰ کو بھی گرفت میں لے چکی ہے۔ 31 اکتوبر کو عین غازی علم الدین شہید کی برسی کے دن توہینِ رسالت کی مبینہ مجرم کو بری کر کے اسلام پسندوں کو یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو، نئی صف بندی ہو چکی ہے، کر لو جوکرنا ہے۔

یہ منظر بڑا ہولناک ہے۔ پہلے بھی کبھی لکھ چکا ہوں کہ 1947 ء میں سرگودھا کے ایک چک کے مقامی مسلمانوں نے اپنی مسجد احمدی مہاجروں کو دے دی کہ یہ لوگ لٹے پٹے ہیں، مسجد نہیں بنا سکتے، ہم نئی مسجد بنا سکتے ہیں۔ پھر مسلمانوں نے اپنی نئی مسجد بنا لی۔ لیکن اب صورت اس قدر خوفناک ہو چکی ہے کہ بدی کی قوتیں ایسے کسی واقعے کے انتظار میں رہتی ہیں۔ اس موجودہ قضیے میں کیا ہم سب نے دیکھا نہیں کہ ایک طرف مذہبی طبقے کا ایک بڑا ہجوم بلا سوچے سمجھے اُس دنگل میں کود پڑا جو مطلقاً مقامی تھا۔

دوسری طرف یورپی یونین، شیوخانِ کلیسا اور اعلیٰ حکومتی عہدے دار عدالتی فیصلے سے قبل آستینیں چڑھا چکے تھے۔ اس مقامی مسئلے اور اس جیسے متعدد دیگر مسائل کی تاک میں وہ قوتیں ہمیشہ رہتی ہیں جنہیں اس گلبدن ملک کا خوبصورت ایکو سسٹم پسند نہیں ہے۔ جن کا ہدف افراتفری، ہیجان، تکدر، بدنظمی اور عدم استحکام ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ توہین مذہب یا توہینِ رسالت جیسے مطلقاً مقامی مسئلے کی پیدائش کے وقت ہی مقامی حکومتی سطح پر قائم کوئی ایسی مقامی کمیٹی اسے نمٹا دے جس میں تمام مذہبی اکائیوں کے درد مند افراد شامل ہوں۔

اقلیتوں سے گزارش ہے کہ ہم پاکستانی ماضی کے کسی کارنیلئس، بھگوان داس، کرنل ٹریسلر اور ان جیسے دیگر معزز اصحاب کو سر آنکھوں پر بٹھا سکتے ہیں تو آئیندہ بھی ان جیسے دیگرروشن اقلیتی ستاروں سے روشنی لینے میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے۔ یورپی یونین، غیرملکی مسیحی راہنما اور مغربی ممالک کے حکام مقامی مہروں۔ ۔ ۔ اِمامانِ سیاست۔ ۔ ۔ کے ذریعے اس ملک میں جو افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں، امید ہے پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اپنے مسائل کو مقامی سمجھ کر مقامی طریقے سے حل کریں گی۔

اصل صورت یہ ہے کہ صفِ اوّل کی سیاسی قیادت کو یا تو شہید کر دیا گیا یا موہومہ کرپشن کی بیساکھی کی مدد سے صفِ اوّل کی سیاسی قیادت کو نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اب ان کی اپنی تیار کردہ قیادت کا جن بوتل سے باہر آ کر ڈرائیوروں اورخانساموں سے جو اپیلیں کر رہا ہے، اسے مکافاتِ عمل ہی کہا جائے گا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ذرا انتظار فرمائیے! آگ سے کھیلنے کا انجام انگلیاں جلانا ہی ہو سکتا ہے۔ فساد فی الارض بپا کرنے والوں سے کسی معطر ایوان کی توقع کرنے والوں کا انجام زیادہ دور نہیں ہے۔

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے پروفیسراوردستوری قانون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ گزشتہ 33 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

dr-shehzad-iqbal-sham has 9 posts and counting.See all posts by dr-shehzad-iqbal-sham