مغرب اور پاکستان میں ریاست اور مذہب کا تعلق


آج مکرم خورشید ندیم صاحب نے اپنی تازہ تحریر میں ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق جیسے ایک پیچیدہ مضمون پر قلم اٹھایا ہے۔ اس ضمن میں سوچا کہ طالبعلم بھی کچھ گزارشات اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے پیش کرے۔ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ بھی نہیں ہے مگر اس کو ہمارے مذہبی طبقے اور کچھ لبرل انتہا پسندوں نے متنازعہ بنا دیا ہے۔ اور اس کی ایک ایسی تشریح نکال کر ممبر و محراب کے ذریعے اور کچھ نصاب میں ردوبدل کرکے پیش کی ہے کہ ایک مذہبی معاشرے کے لئے اس بارے میں شدید نوعیت کے تحفظات پیدا کردیے گئے ہیں۔

مغرب نے کئی سوسال لئے مذہب اور ریاست کے آپس کے تعلق کو سمجھنے کے لئے۔ اور مختصر نتیجہ یہ نکالا کہ ریاست اور مذہبی نظام کو علیحدہ رکھا جائے۔ اسے سیکولرازم کا نام دیا گیا۔ مزید یہ کہا گیا کہ ریاستی امور میں مذہب کی بنیاد پر نا انصافی نہیں کی جاسکتی۔ اور انصاف کا قیام مذہب کا ایک بنیادی اصول بھی ہے۔ نیز یہ کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور دیگر کسی انسان یا ریاست کو ان امور میں مداخلت یا زبردستی کا حق حاصل نہیں ہے۔

اس سب فلسفے کے پیچھے ان قوموں کی کئی صدیوں پر مشتمل مشاہدات اور تجربات کی تاریخ ہے۔ لہٰذا جب وہ ایسا بیانیہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں اس کی تشریح میں کوئی اشتباہ یا ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ مگر ہمارا معاشرہ جس کا ایک قابل ذکر طبقہ ایک جذباتی حد میں داخل ہوتے ہوئے مذہبی ہے، اور ہر طرح کی معاشرتی اور مذہبی راہنمائی محض ممبر و محراب سے ہی حاصل کرتا ہے۔ اس طبقے کو جب یہ کہا جائے کہ سیکولرازم کا مطلب مذہب کو ریاست سے جدا کردینا، یا لادینیت پھیلانا ہے تو اس کے خلاف ایک اجتمائی رائے قائم ہونا ایک طبعی امر ہے۔

سیکولرازم ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس کی سائنسی بنیادوں پر ایک سطری تعریف بیان نہیں کی جاسکتی۔ لیکن سیکولرازم میں کسی طرح بھی مذہب کا بطلان موضوع نہیں ہے۔ بلکہ تمام مذاہب اور نقطہ نظر رکھنے والوں کے لئے ایک برابر احترام کی فضا قائم کرنا اور ان کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دینا ہے۔ کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہ دینا سیکولرازم ہے۔ قانون سب کے لئے مساوی ہونا سیکولرازم ہے۔ ریاست کو سلوک اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی رکھنا خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہوں یا لامذہب ہوں سیکولرازم کہلاتا ہے۔

جہاں تک یہ ایک تعریف بیان کی جاتی ہے کہ سیکولرازم کا مطلب لادینیت یا ریاست کو مذہب سے جدا کرنا ہے یہ دونوں بیانیے ہی غلط ہیں۔ کسی بھی ریاستی بندوبست کو اگر اس کی آبادی مذہبی اکثریت پر مشتمل ہو تو مذہب سے جدا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ وجہ سادہ ہے۔ جب جمہوریت قائم ہوگی تو عوامی نمائندے ہی قانون سازی اور انتظامی امور طے کریں گے۔ اور کیا کوئی عوامی نمائندہ عوام کے مذہبی رجحانات کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتا ہے؟

دنیا میں جن ممالک میں بھی جمہوریت قائم ہے وہاں مذہب کو ریاستی معاملات میں ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی جہاں سیکولرازم مستحکم بنیادوں پر قائم ہے، اوباما کو صدر منتخب ہونے کے بعد عوام کو وضاحت دینی پڑتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ سکہ بند مسیحی ہے۔ اور تو اور اپنے ہمسائے کی مثال ہی لے لیں۔ وہاں کے مسلمان سیکولرازم کو ہی اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت شمار کرتے ہیں۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیکولرازم کس رنگ میں ریاست اور مذہب کے آپسی تعلق کو استوار کرتا ہے۔ اگر اس کی انگریزی کی تعریف دیکھیں تو وہاں کبھی سیکولرازم اور مذہب کا براہ راست تقابل نہیں کیا جاتا۔ البتہ جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے وہ ریاست اور چرچ کے معاملات کو علیحدہ رکھنا کی جاتی ہے۔ چرچ کیا ہے؟ مسیحی مذہب نہیں ہے۔ بلکہ مذہب کے ایسے اجارہ داروں کا ایک ادارہ ہے جو مسیحیت کے ایک خاص فرقے کے لئے مذہبی معاملات کو دیکھتا ہے۔

جس طرح ہمارے یہاں مسلمان مذہبی عمائدین مذہب کو سیڑھی بنا کر سیاسی حکومت کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں یہی کچھ مغربی تاریخ میں چرچ یا کلیسا نے کیا تھا۔ مگر کئی سو سال کی خونی تاریخ سے گزر کر ان کو احساس ہوا کہ مذہب کا بنیادی مقدمہ سیاست نہیں ہے بلکہ دعوت و تبلیغ اور تربیت ہے۔ اس کام کے لئے کسی سیاست کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اگر مذہب کواستعمال کرکے سیاسی فوائد اٹھائے جائیں تو اس کا نتیجہ فساد فی الارض نکلتا ہے۔

لہٰذا طے کیا گیا کہ کلیسا کا کام اچھے مسیحی تیار کرنا ہے ریاست پر حکومت کرنا نہیں۔ اگر کلیسا اچھے کردار کے حامل مسیحی تیار کرے گا تو ریاست میں ایک رنگ مذہب کا آنا لازم ہے۔ اینٹ مضبوط ہوگی تو کمزور نقشے والی عمارت بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ مگر اگر بنیادی اینٹ ہی کچی ہو تو اچھے سے اچھا ڈیزائین بھی ریت کی دیوارثابت ہوگا۔ لہٰذا طے ہوا کہ ریاست کے معاملات آئین کے تحت چلیں گے۔ کلیسا کے راہنماؤں کی مرضی سے نہیں۔

ان کو مذہب کی تشریح کا تو اختیار ہے مگر آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار نہیں اور نہ ہی قانون سازی ان کے دائرہ کار میں آئے گی۔ ہا اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کوئی عمل مذہب سے متصادم اختیار کررہی ہے تو پر امن درس و تدریس کے ذریعے عوام اور ریاستی عہدیدارن کی راہنمائی کی جائے۔ تاکہ ایک پرامن تبادلہ خیال کا رجحان جنم لے۔ اور پھر عوام کو جو بھی اپنی دلیل سے قائل کرلے عوام اس کو منتخب کرلیں۔ ظاہر ہے جب کلیسا ایک اچھا مسیحی تیار کرے گا جو صدق دل سے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوگا جو دراصل کلیسا کا اصل مقام ہے، تو جب ایسے مسیحی سیاست میں آئیں گے تو وہ اپنے مذہب کے خلاف کس طرح بغاوت کریں گے۔

پس یہی اصول مغربی سیکولرازم کی بنیاد بنے۔ ہمارے یہاں اس اصطلاح کو بھرپور انداز میں مطعون کردیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں بھی کلیسا کی مانند مولاناؤں کی انجمنیں اور اجارہ داریاں قائم ہوچکی ہیں۔ جو سادہ عوام کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ اگر ان کو سیاست سے باہر کیا گیا تو گویا اسلام کو خطرہ ہے۔ حالانکہ اگر سوچا جائے تو کیا علماء کا کام علم کی ترویج، عوام کی تعلیم و تربیت اور ان کو بہتر انسان اور پھر اچھا مسلمان بنانا ہے یا سیاست کے گندمیں آکر ذاتی فوائد حاصل کرنا؟

دراصل موخر الذکر کردار سے ہی اسلام کو خطرہ لاحق ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں سیاسی مخالفتیں مذہب کے خلاف بھی رد عمل پیدا کرتی ہیں۔ مختصر الفاظ میں ریاست اور مذہبی اجارہ داروں کو علیحدہ کرنا سیکولرازم ہے مذہب کو کسی طرح بھی، خصوصاً ہمارے پاکستان معاشرے میں جہاں ایک بڑی اکثریت مسلمان ہے، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حالیہ دھرنوں نے سیکولرازم کی ضرورت کو ایک بارپھر بڑی شدت سے ثابت کیا ہے۔ علماء کا کام اچھے مسلمان تیار کرنا ہے نہ کہ ریاست پر حکومت کرنا اور مفادات حاصل کرنا۔

علماء تو سیاست کررہے ہیں جس کے نتیجے میں دن بدن اچھے مسلمان ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اور کرپشن کا گراف دن بدن بلند ہوتا جارہا ہے۔ عوام توہین رسالت کے نام پر بغاوت، قتل و غارت لوٹ مار اور ملکی نظام کو منجمد کرنے کو تو اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں لیکن یہی جرائم جو نبی آخر الزماں ﷺ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں اس بارے میں ان کی غیرت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ بھلا کونسی ایسی خدمت ہے جو نبی ﷺ کی تعلیمات کے خلاف عمل کرکے توہین رسالت کے نام پر کی جاتی ہے۔

آپ بھلے سیکولرازم کی اصطلاح استعمال نہ کریں مگر حقیقی انصاف، مساوات اور قانون سب کے لئے یکساں کے اصول ہی قائم کردیں۔ ہم تو انہیں بھی اسلام ہی سمجھتے ہیں۔ آپ بھی سمجھ لیجیے۔ باقی اگر کسی کا خیال ہے کہ سیکولرازم لادینیت پھیلانا اور مغربی ایجنڈا نافذ کرنا ہے تو اس پر بھلے لعنت ملامت کرتے رہئے۔ ہمیں اصطلاحوں سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ عمل سے غرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).