طاہرالقادری کی واپسی


\"DAVOS/SWITZERLAND,

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور منہاج القرآن کے بانی علامہ طاہر القادری جب بھی کینیڈا سے وطن لوٹتے ہیں، تو وہ احتجاج، دھرنے اور حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے وارد ہوتے ہیں اور چند ہفتے کے دوران اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد واپس اپنی ’پناہ گاہ‘ میں لوٹ جاتے ہیں اور ان کے چاہنے والے، ان کے وعدوں کا اعتبار کرتے ہوئے، انقلاب اور تبدیلی کے خواب لئے دوبارہ اپنے لیڈر کی واپسی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اب ایک بار پھر بھرپور گرمی اور رمضان المبارک کے بیچ علامہ کی واپسی ہوئی ہے۔

اس بار وہ 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنی پارٹی کے کارکنوں کی ہلاکت کے معاملہ پر دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہوئے واپس تشریف لائے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ ملک کی تاریخ کا افسوسناک اور المناک واقعہ ہے۔ اس روز پولیس نے طاہر القادری کے مرکز جانے والی سڑک پر رکاوٹیں دور کرنے کے نام پر منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کارروائی میں 14 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس معاملہ پر ملک بھر سے احتجاج سامنے آنے کے باوجود نہ تو ملزموں کا تعین ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی ذمہ دار کو ابھی تک سزا دی جا سکی ہے۔ البتہ مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے ذریعے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو اس سانحہ سے بری الذمہ ضرور قرار دیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے علامہ طاہر القادری کی طرف سے انصاف حاصل کرنے کا مطالبہ ضرور بجا اور درست ہے لیکن اس کے لئے انہیں ملک کے عدالتی طریقہ کا ر کے مطابق انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کی بجائے وہ اس سانحہ کو بنیاد بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کا تختہ الٹنا ان مقاصد میں سر فہرست ہے۔ انہوں نے 2013 اور 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر یہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان دونوں دھرنوں کے حوالے سے عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ ان کے پیچھے ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا ۔ یہ دھرنے دراصل جمہوری حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے اور امور مملکت کی بجائے غیر ضروری سیاسی تنازعات میں الجھائے رکھنے کے لئے کئے گئے تھے۔ اگرچہ اس بارے میں کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ طاہرالقادری اور عمران خان نے مل کر 2014 میں جو دھرنا دیا تھا، اس کی وجہ سے ملک کی جمہوری حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی تھی۔

علامہ طاہر القادری اب ایک ایسے موقع پر واپس آرہے ہیں جبکہ وزیر اعظم علالت کی وجہ سے ملک سے باہر ہیں اور ابھی چند ہفتے ان کے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پانامالیکس پر شروع ہونے والے تنازعہ پر اپوزیشن اور حکومت میں اختلافات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان تحقیقات کا طریقہ کار اور قواعد طے کرنے کے لئے جو پارلیمانی کمیٹی مقرر کی گئی تھی وہ مقررہ مدت پوری ہونے کے باوجود اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بد اعتمادی کی فضا بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی، بھارت کی پاکستان دشمن سفارت کاری اور سرحد پر افغانستان کی جارحیت کی وجہ سے بھی حالات تشویشناک اور مشکل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ملک کے سیاسی حکمرانوں اور فوجی قیادت کے درمیان مفاہمت اور یک جہتی کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ اشارے بھی موصول ہو رہے ہیں کہ مختلف امور پر فوج اور سول حکومت کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔

اس صورت حال میں علامہ طاہر القادری بیرون ملک سے واپس آکر احتجاج اور دھرنے کا جو نیا تماشا کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے جس طرح فوج کو ملوث کرنے کو کوشش کررہے ہیں، وہ کسی طرح بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے۔ یہ ملک دھرنوں اور ہنگاموں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ تمام سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے چاہئیں۔ اختلاف حل کرنے کا بہترین طریقہ پارلیمنٹ میں مباحث اور حکومت کو بعض جائز مطالبات ماننے پر مجبور کرنا ہی ہے۔ ملک کے خارجی اور داخلی حالت کی روشنی میں احتجاج اور دھرنوں کی باتیں خواہ کسی جانب سے بھی کی جائیں، مناسب نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ کوشش جائز قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض عناصر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے فوج سے مداخلت کی امید کریں۔

علامہ طاہر القادری کے سیاسی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ لیکن وہ متعدد بار کوشش کرنے کے باوجود پارلیمنٹ میں قابل ذکر نمائیندگی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کام کررہا ہے۔ ہر شخص کو اس نظام کو مستحکم کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے کہ انتخاب میں ناکامی کے بعد کوئی فرد یا گروہ اسی نظام کو گرانے پر کمر بستہ ہو جائے، جس میں وہ منتخب ہونے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس مقصد کے لئے مسلسل کام کرنے اور آئیندہ انتخاب میں بہتر کارکردگی کی کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ طاہرالقادری کو بھی اپنے مرے ہوئے کارکنوں کے لئے انصاف کا نام لے کر اب اپنے عقیدت مندوں کو رمضان اور شدید گرمی میں احتجاج اور دھرنے کے نئے امتحان میں مبتلا کرنے سے باز رہنا چاہئے۔

اگرچہ طاہر القادری نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی ہوئی ہے لیکن ان کی اصل طاقت ادارہ منہاج القرآن اور دینی رہنما کے طور پر لوگوں کی ان سے عقیدت ہے۔ علامہ کو خود اس صورت حال پر غور کرتے ہوئے دینی رہنما کے طور پر اپنی عزت و احترام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر وہ بطور عالم دین بھی اپنا اعتبار کھو بیٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments