پاکستان میں حکومت چلانا اتنا بھی آسان نہیں


توہین رسالت کے کیس میں آسیہ کی بریت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا۔ اس کے بعد ملک میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ قانونی نکات اپنی جگہ مگر یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اس حوالے سے بہت زیادہ عالمی دباؤ بھی تھا۔ اپنے قتل کی واردات سے ایک روز قبل پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی مولانا سمیع الحق نے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے ملنے گئے تھے۔ مولانا سمیع الحق نے سب کے سامنے بتایا کہ انٹرنیشنل پریشر اتنا زیادہ تھا کہ عمران خان خود گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ مولانا سمیع الحق کے مطابق انہوں نے وزیراعظم کو بتادیا تھا کہ اس معاملے پر گھٹنے ٹیکے گئے تو ان کی حکومت کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ مولانا سمیع الحق تو اب اس دنیا میں نہیں رہے تاہم ایک بڑے اجتماع میں ان کی تقریر کا ویڈیو کلپ جگہ جگہ موجود ہے۔ کیا عمران خان بتانا پسند کریں گے کہ اس ملاقات میں انہوں نے کوئی واضح جواب کیوں نہیں دیا؟

مقام افسوس کہ جس روز چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اس کیس پر فیصلہ محفوظ کیا اسی دن تحریک لبیک کی جانب سے یہ پیغام سامنے آگیا تھا کہ آسیہ کی بریت کی صورت میں کارکن سڑکوں پر نکل آئیں اور پورا ملک بند کر دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 31 اکتوبر کو فیصلہ سنائے جانے سے محض ایک روز قبل ہی دینی جماعتوں کے کارکن متحرک ہو چکے تھے، سپریم کورٹ نے جیسے ہی فیصلہ سنایا پورا ملک دھرنوں کی زد میں آ گیا۔ اس سے دو نتائج ہی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ (1) یا تو حکومت نے ممکنہ احتجاج کی کال کو سیریس نہیں لیا (2) یا پھر احتجاجی عناصر کو خود موقع دیا گیا کہ وہ ملک کو بند کر کے اپنا غصہ نکال لیں۔

عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پورے ملک کے عوام اس وقت سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے جب وہ عملاً اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔ دفاتر اور مارکیٹیں بند ہو گئیں، تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کے اعلان یوں ہونے لگے جیسے سب کچھ حکومتی سطح پر باقاعدہ اہتمام کے تحت کیا جارہا ہو۔ ان حالات میں کہ جب کشیدگی بڑھتی جارہی تھی ایک شب مال روڈ لاہور پر موجود دھرنے کے شرکا سے خطا ب کرتے ہوئے بعض رہنماؤں نے ریاست کے اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ گفتگو اس قدر حساس تھی کہ لوگ ویڈیو کلپ شیئر کرنے سے بھی گریز کرتے رہے، اگلی رات کو نجانے وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ قوم سے خطاب میں وہ تمام باتیں خود ہی دہرادیں۔ یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ یقینی طور پر جن شخصیات کے متعلق تحریک لبیک کے رہنماؤں کے الزامات کو دہرایا گیا انہوں نے اسے پسند نہیں کیا ہو گا۔ مگر اب کیا بھی کیا جا سکتا تھا۔ پورے ملک میں خوف و ہراس اور بے چینی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ادھر کئی مقامات پر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ بھی ساتھ ہی جاری تھا۔

ایسے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری میدان میں کودے اور احتجاجی عناصر کو آگاہ کیا کہ ہماری فوج کے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ اسی ترنگ میں انہوں نے اپنے سابق باس جنرل مشرف کا وہ ڈائیلاگ بھی دہرا دیا جو فوجی آمر نے نواب اکبر بگٹی کو شہید کرنے سے قبل کہا تھا، یعنی احتجاج کرنے والوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ انہیں کس نے اور کب ہٹ کیا ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان بھی اپنی تقریر میں مظاہرین کو ریاست سے ٹکرانے پر سنگین نتائج کی وارننگ دے چکے تھے۔ ریاست، فوج اور ایٹم بم کا ذکر سن کر ڈی جی آئی ایس پی آر بھی سامنے آنے پر مجبور ہو گئے۔ ٹویٹ کرنے کے بجائے پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے جو موقف دیا اس میں اتنا ہی کہا کہ ہر معاملے میں پاک فوج کو نہ گھسیٹا جائے، ایک طرف تو یہ واضح اشارہ تھا اور دوسری طرف نظام زندگی معطل ہونے کے ساتھ ساتھ حالات اس قدر پیچیدہ ہو چکے تھے کہ واضح حل نکالے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا۔

ملک کے ایک چوٹی کے وکیل نے جو تمام زندگی عدم تشدد کے حامی رہے اور اب بھی ہیں، اس رات یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دونوں سائیڈ سے جو گند ڈالا گیا ہے اس کے بعد اب طاقت کا استعمال لازمی ہو چکا ہے، اس دوران دیگر مذہبی جماعتوں خصوصاً جے یو آئی، جماعت اسلامی، اہل حدیث دھڑوں نے بھی احتجاج کا اعلان کر دیا۔ امن و امان کی صورت حال الجھتی جارہی تھی، جمعہ کو ملک گیر مظاہروں میں تمام مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے احتجاجی پروگرام منعقد کرنے کا اعلان کر دیا، جمعرات کی شب میڈیا ہاؤسز کو آگاہ کیا گیا کہ آج رات بہت بڑا اور سخت آپریشن کر کے تمام دھرنوں کو لپیٹ دیا جائے گا۔ صحافی الرٹ ہو کر بیٹھ گئے، کبھی آپریشن ہونے اور کبھی نہ ہونے کی اطلاعات آنے لگیں۔

یہ بات بھی کہی گئی کہ سب سے پہلے پولیس کو آگے کیا جائے گا اور ساتھ ہی یہ بھی سننے کو ملا کہ پولیس والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ایسا کوئی رسک پھر سے لینے پر رضا مند نہیں۔ غرض یہ کہ تمام رات قیامت کا انتظار رہا مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔ اگلے روز ہونے والے ملک گیر مظاہروں نے صورت حال ہی بدل دی۔ پشاور میں مولانا فضل الرحمن نے ہزاروں کارکنوں سے پرجوش خطاب کیا۔ جے یو آئی کے ہزاروں کارکن وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں گھس گئے۔ ایوان صدر کے سامنے احتجاج اور نماز جمعہ ادا کر کے پرامن طور پر واپس آ گئے۔

جماعت اسلامی کے کارکن بھی سڑکوں پر نکل آئے اور جگہ جگہ مظاہرے کیے۔ تحریک لبیک تو پہلے ہی سے میدان میں موجود تھی، شاید یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ جب فیصلہ کیا گیا کہ معاملے کو طول دینے کے بجائے لپیٹا جائے۔ شام کو لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں حل نکالنے کے لیے چند تجاویز پیش کی گئیں۔ رات کو ان تجاویز کے مطابق ہی معاہدہ طے پا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک یا دو دن مزید کوئی معاہدہ طے نہ پاتا تو خلفشار بہت زیادہ بڑھنے کا خطرہ تھا۔ ہر شے بند ہونے سے نظام زندگی بری طرح درہم برہم ہو چکا تھا۔

معاہدہ کرنے کے بعد حکومت کو خیال آیا کہ اگر توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو ہر معاملے میں غیر واضح منصوبہ بندی اور مہنگائی میں بتدریج اضافے کے باعث پہلے ہی سے تنگ آئے ہوئے عوام کا غصہ بے قابو ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان خوش قسمت رہے کہ اس تمام بحران میں ان کے سیاسی مخالفین بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے کسی قسم کا داؤ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ آسیہ کیس کے فیصلے کے بعد جو کچھ ہوا اس سے ریاست کے اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات سمیت تمام سٹیک ہولڈروں کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچا۔

ایک طرف تو حکومت کریک ڈاؤن کا اعلان کر کے گرفتاریاں کررہی ہے، دوسری جانب سپریم کورٹ کے اس واضح فیصلے کے باوجود کہ اگر آسیہ پر کوئی اور کیس نہیں تو اسے فوری رہا کیا جائے پر عمل کرنے کی جرات نہیں دکھا رہی۔ تحریک لبیک کا حالیہ دھرنا ن لیگ کے دور میں فیض آباد میں ہونے والے دھرنے سے بالکل مختلف ہے۔ اس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت ہی نہیں آزاد میڈیا، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے بھی دھرنے والوں کی سہولت کاری کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

یہ تاثر عام ہے کہ عمران حکومت تو آئی ہی ان عناصر کے بل پر ہے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کتنا آگے بڑھتی ہے؟ ایک دفعہ تو سب کے لیے مشکل صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ فیس سیونگ تو دور کی بات کھلے عام گھومنا پھرنا بھی آسان نہیں رہا۔ اس تمام معاملے کو دور بیٹھ کر دیکھنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کو بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ خواہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہو پھر بھی پاکستان میں حکومت چلانا اتنا بھی آسان نہیں۔ دھرنوں کے منتظمین کو وارننگ دینے کے لیے وزیراعظم نے جو لب ولہجہ اور الفاظ استعمال کیے اس کے بعد پارٹی کے ذمہ دار حلقے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بہت مناسب ہو گا کہ آئندہ لکھی ہوئی تقریر کی جائے اور اس سے پہلے مسودے کو بھی اچھی طرح دیکھ لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).