پاک افغان سرحدی تنازعہ ۔۔۔۔ کیا کرنا چاہیے؟


 \"Torkham\"پاکستان اور افغانستان اگرچہ بات چیت کے ذریعے سرحد پر شروع ہونے والا تنازع طے کرنے پر متفق ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک کشیدگی برقرار ہے اور دونوں طرف سے ٹریفک بھی رکا ہوا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے آج قومی اسمبلی کو بتایا کہ طورخم پر گیٹ کی تعمیر کے حوالے سے افغان حکام کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس بات کو بہانہ بنا کر پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی ہے۔ افغانستان کی بلا اشتعال فائرنگ سے گزشتہ روز ایک پاکستانی میجر شہید ہو گئے تھے۔ کئی جوان زخمی بھی ہوئے ہیں۔ افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک افغان فوجی بھی جان سے گیا ہے۔ اس تصادم کے بعد پاکستان کی طرف سے واضح کر دیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر کنٹرول کرنے کا کام جاری رہے گا اور طورخم کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی گیٹ تعمیر کئے جائیں گے۔ پاکستان کے لئے ان الزامات کی روشنی میں افغانستان کے ساتھ سرحدوں کی نگہداشت زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ پاکستانی علاقے سے دہشتگرد افغانستان میں جا کر دہشتگردی میں ملوث ہوتے ہیں۔ کل امریکی سینیٹ نے پاکستان میں دہشتگردی کےخلاف جنگ کےلئے فراہم کی جانے والی 800 ملین ڈالر کی امداد میں سے 300 ملین ڈالر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کئے تھے۔

اس حوالے سے پاکستان اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اڑھائی ہزار کلومیٹر سرحد کنٹرول کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں۔ لوگوں کو بغیر سفری کاغذات کے سرحد پار کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی واپسی کےلئے کوئی انتظام کیا جائے تا کہ کراس بارڈر دہشتگردی کا سلسلہ بند ہو سکے۔ امریکہ اور افغانستان کے الزامات کی روشنی میں پاکستان کے اقدامات ضروری اور صورت حال تبدیل کرنے کےلئے اہم ہیں۔ لیکن افغان حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے کےلئے آمادہ نہیں ہے۔ اس لئے جب بھی پاکستان اس سرحد کو محفوظ کرنے کےلئے اقدام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو افغانستان کی طرف سے اشتعال انگیزی کی جاتی ہے۔ لیکن دہشتگرد گروہوں کی بیخ کنی کےلئے اب افغانستان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ سرحد کے تعین کے سوال پر مسلسل پاکستان کے ساتھ حالت جنگ میں رہنا چاہتا ہے یا پاکستان کے ساتھ مل کو ایسے تمام ناپسندیدہ عناصر کےخلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے جو پاکستان اور افغانستان میں انتشار اور تخریب کاری کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ زمینی حقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ طالبان اور اس سے وابستہ گروہ افغانستان کے وسیع علاقوں پر قابض ہیں۔ اتحادی افواج کی 15 برس کی جنگ اور اب افغان افواج کو تیار کرنے کے باوجود طالبان بدستور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ افغانستان اور امریکہ اس ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھوپ کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ کابل کی حکومت حقیقت حال کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرے۔

امریکہ کو بھی اس حوالے سے افغان حکومت کو مشورہ دینا ہو گا کہ وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو پاکستان کے خلاف بے مقصد جنگ جوئی میں صرف کرنے کی بجائے طالبان سے اپنے شہریوں اور شہروں کو بچانے پر صرف کریں۔ اس کے علاوہ کابل کو پاکستان دشمن عناصر کا گڑھ بنانے اور ایسے ہتھکنڈوں پر غور کرنے کی بجائے کہ کس طرح پاکستان کو ذیادہ سے ذیادہ نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، پاکستان کے ساتھ مل کر اس پورے علاقے کو انتہا پسندی سے پاک کرنے کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ افغانستان نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ افغانستان دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان بھارت کے ساتھ تعلقات استوار نہ کرے، اس کے ساتھ تجارت نہ کرے اور دونوں ملک ایران کے ساتھ مل کر وسطی ایشیا تک تجارتی راستہ بنانے میں کامیاب نہ ہوں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سرحد پر کشیدگی کی وجہ یہ تھی کہ افغان فورسز طورخم پر پاکستان کی طرف سے گیٹ بنانے پر خوش نہیں ہیں۔ اسی لئے افغانستان کی طرف سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔

حامد کرزئی کابل میں بھارت نواز لابی کے سرکردہ رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والے افغان ادارے بھی بھارتی اثر و رسوخ سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ پاکستان نے طویل عرصہ تک افغانستان کو اسٹریٹجک ڈیپتھ STRATEGIC DEPTH کے طور پر اپنے زیر اثر لانے کےلئے کوشش کی ہے تو اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت نے ہمیشہ افغان حکومتوں کو پاکستان کے خلاف ورغلایا ہے اور اسی کی تائید و حمایت کی وجہ سے ہر افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا ہے۔

بھارت نے اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی کا فائدہ اٹھا کر افغانستان کو پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مرکز بھی بنایا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھارتی جاسوسوں کی گرفتاری اور مختلف سانحات میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرست رہنماؤں کے اسلام آباد کے ساتھ اختلافات ضرور ہوں گے لیکن ان کی سفارتی ، سیاسی اور عسکری سرپرستی کرتے ہوئے بھارت نے انہیں پاکستانی افواج کے خلاف جنگ لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اب افغانستان اور امریکہ کے رہنماؤں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان تمام معاملات کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اگر امریکہ ملا اختر منصور کا پاکستان میں سراغ ملنے پر، اس پر میزائل حملہ کو حق بجانب سمجھتا ہے تو اسے یہ جواب بھی دینا ہو گا کہ وہ کون سی مصلحت ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی برداشت کر رہا ہے اور اس کا کوئی ڈرون اسے نشانہ بنانے کےلئے میزائل فائر نہیں کرتا۔ واشنگٹن میں بیٹھ کر الزامات لگانے کی بجائے امریکی حکام کو بھی زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانا پڑے گی۔ ورنہ نہ تو اس علاقے میں امن قائم ہو سکے گا ، نہ دہشتگردی کی بیخ کنی ممکن ہو گی اور نہ ہی امریکہ اپنے بیان کردہ مقاصد یعنی افغانستان میں امن اور جمہوریت کو حاصل کر سکے گا۔

طورخم تنازعہ کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے افغان حکومت کے پاکستان دشمن ایجنڈے کے بارے میں کھل کربات کی ہے۔ یہ الزامات صرف پاکستان کے بھارت کے خوف کی روشنی میں جاری نہیں ہوئے بلکہ ان کا اس حقیقی صورتحال سے تعلق ہے، جس سے افواج پاکستان نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن ان کوششوں کو کامیاب بنانے کےلئے امریکہ اور افغانستان کی طرف سے جس تعاون کی ضرورت ہے، وہ فراہم نہیں ہوتا۔ افغانستان سرحدوں پر کنٹرول اور افغان مہاجرین کے سوال کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکہ بھی افغانستان کو ان مسائل کو حل کرنے کےلئے موثر کارروائی کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں پاکستان پر الزامات عائد کر کے کوئی خاص مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسائل سے نظر بچانے کی بجائے، ان کا سامنا کیا جائے اور انہیں حل کرنے کےلئے اقدامات ہوں۔

ان میں سب سے اہم مسئلہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے کا عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر افغان موقف تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کا 60 سے 70 فیصد علاقہ افغانستان کو دینا پڑے گا۔ یہ ایسا غیر حقیقی موقف ہے جس پر عملدرآمد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک نسل ، عقیدہ یا قبیلہ سے تعلق رکھنے والوں کی تقسیم کا معاملہ صرف پاک افغان سرحد تک ہی محدود نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں نوآبادیاتی دور کے بعد ملکوں کی حدود کا تعین کرتے ہوئے ان ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن سب ملکوں نے نئی صورتحال کو قبول کرنا اور اس کے ساتھ زندہ رہنا ضروری سمجھا۔ افغانستان کو بھی ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے کھلے دل سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر کے تھوڑی بہت ترمیم کے بعد سرحدوں کو قبول کر لینا چاہئے۔ افغانستان کی سلامتی اور مستقل تحفظ کے نقطہ نظر سے یہ ایک اہم اور ضروری اقدام ہو گا۔

پاکستان نے امریکہ اور افغانستان کے پرزور اصرار پر دو برس قبل آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے بیشتر علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کروا لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر ISPR کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کل اس آپریشن کے 2 سال مکمل ہونے پر تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں سے جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے 61 فیصد لوگ واپس اپنے علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ جن علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کروایا گیا ہے، ان پر اب حکومت پاکستان اپنا کنٹرول بحال اور برقرار رکھے گی۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران 490 پاکستانی فوجی جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری اور انتہا پسندی کی روک تھام کی گئی ہے اور پاکستان کے شہری اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی اس فوجی کارروائی سے افغانستان میں صورتحال بہتر بنانے کےلئے بھی حالات سازگار ہوئے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ عناصر اب بھی افغانستان میں دہشت گردی کےلئے پاکستانی علاقوں کو استعمال کرتے ہوں لیکن ان عناصر کےخلاف کارروائی کے لئے امریکہ اور افغانستان کو دو اہم اقدام کرنا ہونگے۔ الف) افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف موثر کارروائی کی جائے اور اسے پاکستان میں حملے کرنے سے روکا جائے۔ ب) حکومت افغانستان بارڈر کنٹرول کےلئے پاکستان کے منصوبہ میں اعانت کرے تا کہ ناپسندیدہ عناصر بغیر روک ٹوک ایک سے دوسرے ملک میں نہ جا سکیں۔

یہ دونوں اقدام کئے بغیر پاکستان پر یک طرفہ الزام تراشی اور غیر ضروری دباؤ ڈالنے کی کوششیں کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ نہ ہی اس طرح افغانستان میں امن کی بحالی کےلئے کابل اور واشنگٹن کے ارادوں اور نیک نیتی کی تصدیق ہو سکے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments