فاضلِ بریلوی امام احمد رضا قدس سرہٗ کا نظریۂ تعلیم



فاضل بریلوی امام احمد رضا قدس سرہ ٗچودہویں صدی ہجری کے مایۂ ناز نعت گوشاعر، محقق، فقیہ، مفتی اور مجدد ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی دین کی خدمت، مسلمانوں کے مسلّمہ عقائد اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے گزاری۔ اس سلسلے میں آپ نے اپنے دور کے متعدد غیر اسلامی امور و معاملات سمیت مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے متعدد مسائل کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد آپ نے ان مسائل کے حل کے لیے مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لاکر ان میں نت نئی جہات کو متعارف کرواتے ہوئے ان کا حل پیش کیا۔

آپ نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے امت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے ان کے دلوں کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار کرنے کا عزم مصمم کیا۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ تعلیمی میدان کے ایک عظیم شہسوار اور علم وحکمت کے گوہر نایاب تھے۔ آپ کے زمانہ میں بر صغیر پاک و ہند کے زیادہ تر مسلمان تعلیمی میدان سے دور تھے اور جو لوگ تعلیم حاصل کرنے میں کوشاں تھے وہ بھی حصولِ تعلیم کے اصل مقصد اور اس کی اصل روح سے ناواقف تھے۔

آپ نے اپنے دور میں مسلمانوں کی تعلیم و تعلم سے دوری اور اس سے بے رغبتی کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ ان کی علمی میراث دلوانے کے لیے چند تعلیمی نظریات پیش کیے۔ آپ کے نظریۂ تعلیم پر متعدد اصحابِ علم و فن نے اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالی جس کا لب لباب یہی ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم کے ذریعے محض تعلیم یافتہ بنانا نہیں بلکہ علم کی اصل روح اور اس کا جوہر ان کے دلوں میں منتقل کرنا ہے۔

فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے تعلیمی افکار و نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد سب سے پہلا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ علوم چاہے قدیمہ ہو ں یا جدیدہ ’ ان سب کا مقصد دین کا فہم حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ اسلامی فقہیات کا علم ہو یا سائنسی علم، ہر علم کو دین و شریعت کے تابع کرکے اسے حاصل کرنا چاہیے۔ جیسے طبیعیات (Physics) اور ارضیات (Geology) سے پانی اور مٹی کی ماہیت و کیفیت اور احوال معلوم کیے جائیں تاکہ بدن، لباس، جائے سجدہ کی طہارت کے مسائلِ فقہیہ معلوم ہوسکیں۔

اسی طرح علم ریاضی (Mathematics) سے فرائض ومیراث اور پانی کی قلت و کثرت کے مسائل کا استخراج ہوسکے۔ علم توقیت کو نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے مسائل کے لیے استعمال کیا جائے۔ علم کیمیاء (Chemistry) سے اشیاء کی کیفیت اور ماہیت وغیرہ کی پہچان کی جائے۔ ہمارے اداروں میں نصاب میں جدید تعلیم اس انداز سے دی جاتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقیقی فاعل و مختار ہونے کا ذکر ہی غائب کردیا گیا ہے۔ تعلیم کے انداز سے طالب علم یہی سمجھ بیٹھا ہے کہ فلاں اشیاء سے فلاں مرکب بنتا ہے۔

سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے، چاند اس طرح پیدا ہوتا ہے۔ بارش ان وجوہات کی بناء پر ہوتی ہے۔ زلزلہ کی وجوہات فلاں ہیں، ان سب میں حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہٹادیا گیا ہے۔ یہ چیزیں طالب علم کے سامنے اس طرح پیش کی جاتی ہیں جیسے ان کے اسباب پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بس یہ سب خود بخود وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ (امام احمد رضا کا نظریۂ تعلیم، محمد جلال الدین قادری)

مسلمان جب تک دینی و سائنسی علوم اغراض صحیحہ اور مقاصد حقیقہ کے لیے استعمال کرتے رہے دنیاوآخرت میں سر خرو رہے اور جب مسلمانوں نے اپنی تعلیم میں ان اغراض کو خارج کردیا، تب سے پستی میں ہیں۔ مذکورہ بالا تمام علوم کی تعلیم عام ہے اور لازمی بھی ہے لیکن امام احمد رضا کا نظریہ اور مقصد تمام اصناف علوم کی تعلیم کا مقصد اور مدعا دین کی فہمی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ پر چلنا ہے۔ تعلیم اگر خدا رسی اور رسول شناسی میں معاون نہیں تو بے کار محض اور وقت کا ضیاع ہے۔

امام احمد رضا کے نزدیک تمام علوم و تعلیمات کا مقصد و منتہا بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں نیاز مندانہ حاضری ہے۔ تمام علوم کی غرض و غایت گنبد خضراء کے مکین کے حضور عقیدت و محبت سے وابستگی ہے۔ آپ کی اس بات سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ سائنسی علوم سیکھنے کی نفی کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ سائنسی علوم کے سیکھنے کی نفی نہیں کرتے بلکہ آپ کا نظریہ علوم عقلیہ، سائنس (Science) ، فلسفہ (Philosophy) ، منطق (Logic) ، علم نجوم (Astrology) وغیرہا کی تعلیم کے بارے میں یہ ہے کہ ان علوم کو آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی کی روشنی میں پرکھا جائے نہ کہ قرآن و حدیث کو ان علوم کے میزان پر پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ علوم عقلیہ کے نظریات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے مشاہدات اور اصول کبھی بھی ایک جگہ قائم نہیں رہتے۔

فاضل بریلوی نے ”نظریۂ حکمت“ کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن وحدیث کی حقیقتیں غیر متبدل ہیں جبکہ سائنس ابھی ترقی کی راہوں پر ہے۔ قرآن و حدیث کا کہا ہوا اٹل ہے لیکن سائنس کی تحقیقات ہر چند سالوں بعد تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا قرآنی علوم اور سائنس کے نظریات میں تضاد آجائے تو قرآنی نظریات کو اٹل اور حق ماننا معیار ایمان ہے۔ اس کے برعکس قرآنی نظریات کے مقابلے میں سائنسی نظریات کو ماننے سے حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ جب سے سائنسی علوم ایجاد ہوئے ہیں اس وقت سے ہر دور میں سائنسدان اپنا الگ نظریہ پیش کرتے رہے جبکہ قرآن کی بات حق ہے جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتی لہٰذا قرآن اور سائنس کے تصادم میں قرآنی نظریات و اعتقادات پر ایمان لانا ضروری ہے۔

آپ کے تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ ”نظریہ افادیت“ کے نام سے ملتا ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ علوم اپنے انواع و اقسا م کی کثرت کے باعث اس قدر ہیں کہ عام آدمی جس کی زندگی قلیل ہے وہ تمام علوم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مفید علوم کی طرف متوجہ ہو۔ امام احمد رضا کے نزدیک نصاب میں وہ علوم شامل کیے جائیں جو دین و دنیا دونوں میں مفید ہوں، جو علم نافع نہ ہو، اس کی تحصیل سے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : اے اللہ میں ایسے علم سے پناہ مانگتاہوں جو نفع نہ دے۔ ہمارے بعض اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے ان میں سے بعض نہ دین کے لیے کارآمد ہیں اور نہ ہی دنیا کے لیے۔ اگر نظریۂ افادیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب مرتب کیا جائے تو یقینی طور پر طلبہ میں قابلیت پیدا کی جاسکتی ہے اور ان کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات غیر مفید علم میں ضائع ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2