آزاد کشمیر کے آسمان سیاست کا چمکتا ستارا ڈوب گیا!


اکہتر برس قبل 5 نومبرکو سردار ملی خان اور سبز علی خان جیسے بہادر، غیور، خوددار اور سرفروش لوگوں کی فطری حسن سے مالا مال دھرتی کی آغوش میں آنکھیں کھولنے والا سپوت سردار خالد ابراہیم 5 نومبر ہی کو کشمیر کی مٹی اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔ ان کا جنازہ کشمیر کی تاریخ کے چند بڑے اور یادگار جنازوں میں شامل ہے۔ اہل کشمیر ٹھٹھرتی اور اداس شام کے سایے میں جب آزادکشمیر کی سیاست کے شاید سب سے با اصول، دیانتدار، ایماندار، نڈر، اعلی تعلیم یافتہ، مہذب اور بے لوث سیاسی قائد کو لحد میں اتار رہے تھے تو پانچ نومبر کے الوداع ہوتے سورج پر بھی سوگ کی زردی چھائی تھی۔ آج راولاکوٹ کی دھرتی کے غیور اور نجیب لوگوں کے چہرے اداس، آنکھیں اشک بار، دل ملول، روحیں گھائل اور احساسات زخمی تھے۔

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفناکے آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا

سردار خالد ابراہیم آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار ابراہیم خان کے فرزند تھے۔ یہ وہی سردار ابراہیم خان ہیں جنہوں 1947 میں اپنی جان ہتھیلی پررکھ کر تحریک آزادیء کشمیر میں حصہ لیا تھا اور انتھک محنت، حکمت اور سیاسی بصیرت کوبروئے کارلا کر آزادکشمیر کو ہندؤوں کے نرغے سے نجات دلائی تھی اور بانی صدر ہونے کا اعزاز پایا تھا۔ سردار ابراہیم کی سیاسی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو جیسا نابغہء روزگار و زیرک سیاستدان بھی ان سے بے شمار امور میں مشاورت کرتا تھا۔ مگر آفرین ہے سردار خالد ابراہیم پر کہ جنہوں نے اپنے والد کی عظیم سیاسی میراث کوسفارش ک سیڑھی بنانے کے بجائے خارزار سیاست میں اپنے راستے خود بنائے۔ سیاسی مراحل کے خدوخال خود تراشے اور اخلاق و کردار کی بلندی کے نقوش خود اپنی محنت اور تندہی سے کندہ کیے۔

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بناگیا

میری مرحوم سے ایک دو ہی مختصر ملاقاتیں ہوئیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جناب خالد ابراہیم ہمارے مفاد پرستانہ، مادیت پسندانہ اور خود غرضانہ دور سیاست کے آدمی ہی نہیں تھے۔ اگر وہ مغرب کے کسی مہذب، تعلیم و ترقی یافتہ اور با اصول معاشرے میں کار سیاست کرتے تو صحیح معنوں میں ان کے جوہر کھلتے۔ وہ ہوا و ہوس کے مارے اس معاشرے میں ان فٹ تھے کہ جہاں اکثر لوگوں کے خیال کی پرواز ٹینکی، ٹوٹی اور ٹب سے آگے نہیں جاتی۔

میں نے ہر موقعے پر انہیں ایماندار، دیانتدار، اصول پسند اور دو ٹوک مؤقف کا حامل پایا۔ ان کا اصل میدان تو سیاست ہی تھا اور یہی ان کی توجہ اور محنت کا اصل مرکز و محوربھی تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ذاتی اور گھریلو ذمہ داریوں سے لے کر معاشرتی اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی تک وہ ایک فعال اور متحرک انسان تھے۔ وہ ایک صاحب مطالعہ شخص تھے اور عالمی سیاست کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے تھے۔ آزاد کشمیر کے سب سے زیادہ وسیع المطالعہ، با خبر اور صاحب بصیرت سیاسی و سماجی راہنما تھے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور علمی، سیاسی یا ملکی معاملہ، ہر جگہ نتیجہ خیز و مؤثر بحث و مباحثے کے لیے سب کی نظر انتخاب انہیں پر پڑتی۔

سردار خالد ابراہیم ان درویش منش اور قانع مزاج سیاستدانوں کے باعث فخر حلقے میں شامل تھے کہ جنہوں نے سیاست کو کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے نواب زادہ نصراللہ کی طرح اپنی زمین جائداد اور جمع پونجی لٹا کر سیاست میں اپنا مقام پیدا کیا۔ خودداری اور غیرت مندی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹہ کے عروج کے زمانے میں اصول کی بنیاد پر ان سے اختلاف کر کے جے کے پی پی کے نام سے اپنی الگ پارٹی کی داغ بیل ڈالنے کے حوالے سے اپنے والد محترم کا ساتھ دیا۔

کئی بار آزادکشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اصولوں کی خاطر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا دے کر یہ ثابت کیا کہ ان کے نزدیک اقتدار سے زیادہ اقدار کی سیاست کی اہمیت ہے۔ آزادکشمیرکے حالیہ انتخابات سے پہلے ان کی صدارت کے منصب پربراجمان ہونے کی خبریں گردش میں تھیں مگر برا ہوہماری سیاست کاری کی بوالعبیوں اور محلاتی سازشوں کا کہ انتخابات کے بعد ”منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے“ مگر میرا احساس یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی عظمت اور سیاسی قد کاٹھ میں تو کوئی کمی نہیں آئی البتہ منصب صدارت اگر انہیں مل جاتا تو یقینی طور پر اس منصب کی اپنی توقیر بڑھ جاتی۔

ان کے اچانک اٹھ جانے سے آزادکشمیر کے ایوانوں میں خاص طور پر اور پاکستان کے سیاسی میدانوں میں عام طور پر ایک حق گو، بے باک، توانا، جرات مند اور سچی آواز ختم ہو گئی۔ آزادکشمیر کی عدالتوں نے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی روبہ عمل لا کر انہیں آنے والے چند یوم میں پابند سلاسل کر دینا تھا مگر قید استعمار کی ذلت آمیز گھڑیوں سے پہلے ہی وہ جوانمرد قیدحیات سے آزاد ہو گیا۔ سردار خالد ابراہیم کا خلا کبھی پورا نہیں ہو گا۔ انہوں نے پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور جزئیات سمیت اجاگر کیا۔ بلا شبہ وہ پوری کشمیری برادری کا معتبر حوالہ اور فخر تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).