موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا


جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور میں عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے ایک کتاب موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ مفت تقیسم ہوا کرتی تھی۔ اس وقت کے ہر نوجوان نے پڑھی ہے۔ مذکورہ کتاب کی عملی تصویر آج سماج میں بھرپور طریقے سے نظر آتی ہے۔ پچھلے دنوں آسیہ بی بی کی بریت سے پیدا ہونے والی صورتحال اس امر کی غماض ہے کہ سیاسی تنظیمیں آج بھی 1988 سے پہلے والی پوزیشن سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو سکیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے سیاسی نظریات کی آبیاری اور نئی قیادت کی تعمیر کی بجائے اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے پر صرف کیا ہے۔

کمزور اور فرضی تنظیمی ڈھانچوں کے ساتھ محض اقتدار کے لئے رسہ کشی کی ہے۔ جس کے نتائج غیرجمہوری عناصر کے طاقت پکڑنے کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اس سارے کھیل تماشے کے اصل ذمہ دار سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاست کومنڈی بنادیا اور نفع ونقصان کی بنیاد پر سمجھوتے کیے ہیں۔ قیادتوں کی ہوس اقتدار نے سیاسی پارٹیوں کو کمزور کیا جس سے اک خلا پیدا ہوا۔ اگر سیاستدان یہ رونا روتے ہیں کہ کچھ قوتوں نے انہیں کام نہیں کرنے دیا ہے۔

مارشل لا لگتے رہے ہیں تویہ جواز تراشنا بھی سیاسی قوقوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سیاسی جماعتیں حکمت عملی سے کام کرتیں ہیں۔ جتنے زیادہ حالات کٹھن ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تعمیر بہتر ہوتی ہے۔ حکمت عملی تبدیل کی جاتی ہے۔ نئے پیدا ہونے والے حالات کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنا کام عوام میں جاری رکھتی ہیں۔ حالات سے سمجھوتے نہیں کیے جاتے ہیں۔ چین، زار کے روس، انگریز سامراج کے ہندوستان میں سیاسی جماعتوں نے سخت ترین حالات میں کام کیا اور آخر کار کامیابیاں حاصل کیں۔

مارشل لا لگتے ہی سیاسی قوتوں کی کمزوریوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر سیاسی قوتیں مضبوط ہوں تو کسی غیرجمہوری قوت کو کبھی اقتدار پر قبضہ کرنے کی جرات نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ ایک المیہ ہے۔ سیاسی جماعت کی قیادت اقتدار میں آتے ہی اپنی جماعت اور کارکنوں کو بھول جاتی ہے۔ جس کے باعث جماعتیں مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوجاتیں ہیں۔ سیاسی نظریات کو پروان چڑھانے کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور اقرباپروری کو رواج دیا جاتا ہے۔

جس سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے۔ غیرجمہوری لوگوں کو سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے مواد مل جاتا ہے۔ عوام پہلے ہی نالاں ہوتے ہیں۔ چرب زبانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مذہب اور مقدسات کے نام پر عوام کے جذبات پر ڈاکہ زنی کی جاتی ہے۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ ضیادور میں لوگوں کا سیاسی شعور ختم کرنے کے لئے کس طرح سے مذہبی ہتھکنڈے اور حربے برتے جاتے رہے ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ سیاسی قوتیں عبرت حاصل کریں۔

وزیراعظم عمران خان نے دورہ چین کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے سنٹرل سیاسی سکول سے خطاب بھی کیا تھا۔ چین سے ہی سبق سیکھ لیں۔ تحریک انصاف میں سیاسی سکول کا آغاز کریں۔ ہر سیاسی جماعت میں سیاسی سکول بنائے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی کے باعث شدت پسندی عروج پر ہے۔ طلبہ یونین بحال کرکے وزیراعظم براہ راست اپنی نگرانی میں یونین کے الیکشن کرانے کے انتظامات کریں۔ اس سے نئی قیادت جنم لے گی اور دوسری جانب انتہا پسندی اور شدت پسندی سے بھی نجات ملے گی۔

یہ کام فوری کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ نیاپاکستان تب ہی معرض وجود میں آسکتا ہے۔ میٹروبسوں، اوور ہیڈ برجز بنانے، تجاوزات کے خاتمے اور کڑے احتساب سے نیا پاکستان نہیں بنے گا۔ حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی قوتوں کواس امر پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر گزشتہ دنوں پاکستان بھر کی سٹرکوں پر موت کے سوداگر دندناتے سب نے دیکھے ہیں۔ موت کا یہ منظر سیاسی قوتوں کے لئے چتاونی ہے۔ اس امر سے سب واقف ہیں کہ اگر یہ موت واقع ہوجاتی ہے۔ توپھر تصور کریں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).