کچھ مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیے گئے ہیں
زیادہ تر مار دیے گئے
تشدد کے بعد
کچھ بھون دیے گئے
آتشیں ہتھیاروں کے ساتھ
اور پھینک دیے گئے اجتماعی قبروں میں
کچھ کی آنکھوں پر
سیاہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں
وہ مرتے ہوئے خود کو بھی نہ دیکھ سکے
کچھ سرحدیں پار کرتے ہوئے
محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے
کچھ کھلے سمندروں میں
ڈوب گئے
اُن میں بچے بھی تھے
بوڑھے اور جوان مرد بھی
لڑکیاں اور عورتیں بھی
کسی کے ہاتھوں پہ لمس تھا
کسی کے ہونٹوں پہ پھول
کسی کی آنکھوں میں خواب
کسی کے سینے میں امید
موت کسی کے دل میں نہیں تھی
لیکن مارے گئے
جو بچ گئے
وہ مہاجر کیمپوں میں
مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیے گئے ہیں
پتا نہیں انہیں کب، کہاں اور کیسے موت آئے گی!
Latest posts by نصیر احمد ناصر (see all)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).