دھرنا، فسادیوں کی گرفتاریاں اور چند حقائق


جمعہ شب حکومت اور مظاہرین کے مابین معاہدہ طے پاجانے کے نتیجہ میں دھرنا ختم ہوا تو اہلِ وطن نے کلمہ شکر ادا کیا، کیونکہ دھرنا کی وجہ سے ملک کے بڑے شہروں کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ اب حکومتی ترجمان کی جانب سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ دھرنا ختم کرنے کا معاہدہ عارضی حل تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور ریاست کے خلاف تقریریں کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

امرواقعہ یہ ہے کہ دھرنا اور احتجاج کی آڑ میں لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ریاست مخالف ان دھرنوں میں اہلِ سیاست اور اہلِ مذہب یکساں تاریخ رکھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے حالیہ دھرنے کے جن فسادیوں کی تصاویر شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان کی شناخت کے بعد ان فسادیوں پر سنگین نوعیت کے مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شرپسند عناصر تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ان لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور جلاؤ گھیراومیں جو نقصان ہوا ہے ان ہی سے اس کی تلافی کرائی جائے۔ ریاست کے اس اقدام کا فائدہ یہ ہو گا کہ آئندہ دھرنے یا احتجاج کی آڑ میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ ختم ہو جائے گا۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست کی رٹ مضبوط بنانے میں حکومت کا یہ اقدام انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ لیکن کیا بظاہر آسان اور فائدہ مند نظر آنے والے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ ماضی میں اگرچہ بہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں لیکن صرف دو مثالیں پیش ہیں، جن کا تعلق اہل مذہب سے نہیں بلکہ اہل سیاست سے ہے۔

27 دسمبر 2007 ءکو لیاقت باغ میں جب دہشت گردوں نے انتہائی سفاکیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا تو پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے، جس میں پیپلز پارٹی کے کارکنان پیش پیش تھے، ہزاروں، لاکھوں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا، متعدد پیٹرول پمپوں کو آگ لگائی گئی، چلتی ہوئی ٹرینوں کو پہلے لوٹا گیا اور بعد ازاں انہیں نذر آتش کیا گیا۔ اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر پیسے نکالے گئے، حتیٰ کہ بازار میں شاپنگ کے لیے گئی ہوئی خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا اور درندوں نے زیورات اور نقدی چھیننے کے بعد خواتین کے ساتھ دست درازی بھی کی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد تین دن تک ایسی صورت حال رہی کہ جیسے اس ملک کا کوئی والی وارث نہ ہو۔

دوسری مثال 2014 ءکی ہے جب تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ہزاروں لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوئے، چند دن آبپارہ اسلام آباد میں گزارنے کے بعد زبردستی ریڈ زون میں داخل ہوئے اور پھر ڈی چوک میں 126 دن کا طویل دھرنا دیا۔ اس طویل دھرنے میں بات صرف احتجاج تک محدود نہیں رہی بلکہ جلاؤ گھیراؤ کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

موجودہ حکومت حالیہ دھرنے کے فسادیوں کے خلاف کارروائی کے لیے پرعزم ہے لیکن جن لوگوں نے 2007 ءمیں یا 2014ء میں جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، کیا انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا، کیا انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی؟ اہل مذہب کی پکڑ دھکڑ پر اگر کسی مذہبی جماعت نے اس طرح کا سوال اٹھا دیا تو حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟

سیاسی ومذہبی جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں املاک کو نقصان پہنچانے میں ایک بات مشترک ہے کہ اس طرح کے واقعات میں بالعموم اسٹیج سے اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں اور اسٹیج سے ہی جلاؤ گھیراؤ کا کہا گیا، اگر اسٹیج سے مظاہرین کو مشتعل کیا جائے گا تو ہزاروں کا مجمع کیا کرے گا؟ اس کے نتائج کو سمجھنے کے لیے مذکورہ دو واقعات ہی کافی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت فسادیوں کو ضرور گرفتار کرے، انہیں کڑی سے کڑی سزا بھی دے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو کام اور بھی کرے۔

ایک یہ کہ گرفتاریاں صرف حالیہ توڑ پھوڑ پر ہی نہ کی جائیں بلکہ ماضی کے فسادیوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ سیاسی کارکنان اور قائدین کو بھی کوئی رعایت نہ دی جائے، عام کارکنان کو پکڑنے کے بجائے اس بات پر توجہ دی جائے کہ کس اسٹیج سے کس نے کیا کہا، کارکنان کو جب معلوم ہو گا کہ سخت الفاظ کے استعمال کی وجہ سے ان کے ”محبوب قائدین“ کو گرفتار کیا گیا ہے تو کارکنان توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی سے گریز کریں گے۔

حکومتی ترجمان کے بقول دھرنا والوں کے ساتھ معاہدہ عارضی حل تھا، انہوں نے معاہدے کو پس پشت رکھتے ہوئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ اس بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو بھی معاہدہ کیا جائے وہ وقتی یا عارضی نہ ہو بلکہ انتہائی سوچ بچار کے بعد کیا جائے اور عجلت میں ایسی شرائط پر معاہدہ کرنے سے گریز کیا جائے کہ جس سے ریاست کی رِٹ کمزور پڑتی ہو۔ اس کے باوجود اگر معاہدے کو توڑنے کی ابتداءحکومت کی جانب سے ہوتی ہے تو کل کلاں کسی معاہدے کا طے پانا انتہائی مشکل کام ہو گا اس وجہ سے کہ کہیں بعد ازاں حکومت اس معاہدے سے مُکر نہ جائے۔

حکومتی ترجمان دھرنا ختم کرانے اور حالات معمول پر لانے پر خوش ہیں لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں کہ مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اگر نظرثانی کے بعد بھی سپریم کورٹ کی طرف سے اس فیصلہ کو برقرار رکھا جاتا ہے تو خدشہ ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ ردِعمل آئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقتی یا عارضی حل کے بجائے اس مسئلہ کا دیرپا حل نکالا جائے۔ دیرپا حل کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کو بھی اسی آنکھ سے دیکھا جائے جس سے مذہبی جماعتوں کی غلطیوں کو دیکھا جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).