بیت الخلاء سے خلائی مشن تک


وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے یہ اطلاع دے کر ہمیں نہال کردیا ہے کہ 2022 میں پاکستان اپنا خلائی مشن بھیجے گا، یوں پہلا پاکستانی خلاء پہنچ کر وہاں چہل قدمی کرے گا۔ بہ قول جون ایلیا ”یہ واقعہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں“ کہ اس ملک کا باشندہ خلاء کا سفر کرے گا جہاں لاکھوں لوگ بیت الخلاء بھی نہیں جاتے اور مجبوراً یا عادتاً کھیتوں، میدانوں اور جنگلوں کی صورت ”بیت ال کھلا“ میں حوائجِ ضروریہ پوری کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پاکستانیوں کو خلاء سے کچھ لینا دینا نہیں، نہیں صاحب یہ خلاء سے ہماری رغبت ہی تو ہے کہ ہمارے ہر گھر میں بیت الخلاء ہوتا ہے، گویا ”دل کے آئینے میں ہے تصویرِیارجب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ “

یہ اطلاع دے کر فوادچوہدری صاحب نے ہمیں ہی نہیں ہر پاکستانی کو خوش کردیا ہے، خوشی کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اب تک سب یہی سمجھتے تھے کہ وزیراطلاعات دھمکی دیتے ہیں ِ، وضاحت دیتے ہیں، الزام دیتے ہیں، جواب دیتے ہیں، نہیں دیتے تو بس کوئی اطلاع نہیں دیتے، انھوں نے یہ پُرمسرت اطلاع دے کر قوم کی یہ غلط فہمی دور کردی، اور اہل وطن کے مسرور ہونے کی دوسری وجہ ہمارے خلاء میں قدم رنجہ فرمانے کی خوش خبری ہے۔ دراصل خلاء سے ہم پاکستانیوں کو خصوصی دل چسپی ہے، اسی لیے ہمارے ہر گھر میں اور عوامی مقامات پر بیت الخلاء ہوتے ہیں، جہاں قدم رکھ کر دراصل خلاء میں قدم رکھنے کی تمنا کی جاتی ہے، اسی فکر میں مگن ہوکر تو غالب نے کہا تھا، ”ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب“ تو صاحب یہ بیت الخلاء خلاء کی تمنا کا پہلا قدم ہے، اس ”مقام“ کو یہ نام دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ ہمارے دلوں میں خلاء تک پہنچنے کی آرزو جاگتی رہے اور ”خالی“ بیٹھ کر ہر پاکستانی خلاء میں پہنچنے کے بارے میں سوچتا رہے۔

خلاء کے بارے میں ہمارے ہاں ایک بات طے ہے کہ یہ کبھی پُر نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں جس حساب سے علماء، صحافی، شاعر، ادیب، نقاد، مصور، اداکار، گلوکار، سیاست داں، قانون داں اپنا خلاء چھوڑ کر جاتے ہیں، جس کے کبھی پُر نہ ہونے کی سند انھیں بلدیہ کے دفتر سے وفات کا سرٹیفکٹ ملنے سے بہت پہلے مل جاتی ہے، اگر یہ سارا خلاء واقعی ہوجاتا تو ہمیں کائنات میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہمارا اپنا قومی خلاء ہوتا، جسے ہم چاہتے تو چین کو پِٹے پر یا امریکا کے اڈے کے لیے مستعار دے دیتے، ملک کے اس ملکیتی خلاء میں پلاٹ الاٹ کیے جاتے، چائنا کٹنگ ہوتی، کچی آبادیاں بسا کر پکی کی جاتیں، جب یہ خلاء بھر جاتا تب تک مزید چند سو یا ہزار بڑے لوگ خلاء چھوڑ کر جنت سُدھار چکے ہوتے، اور ان کے مجموعی خلاء میں اہل نظر اور ان سے بڑھ کر اہل زر تازہ بستیاں آباد کر رہے ہوتے۔

پاکستانی کو خلاء میں بھیج کر موجودہ حکومت قوم کی دیرینہ آرزو پوری کرے گی۔ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ یہ فریضہ تحریک انصاف کی حکومت ہی انجام دے سکتی ہے، مگر ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ خواب اتنی جلدی تعبیر پانے کو ہے، حالاں کہ سامنے کی بات ہے خلائی مخلوق سے تعلق جْڑ جائے تو خلاء میں پہنچنا کیا مشکل! دراصل یہ تعلق بھی خلاء بازی کے شوق میں قائم ہوا، اور صاحب خلائی مخلوق بازی گر بھی ہو تو اس سے دوستی خلاء باز بناکر بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ خلاء کی تسخیر قومی خواب ہی نہیں مصور پاکستان علامہ اقبال کی خواہش بھی تھی، سو انھوں نے کہا تھا:

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس شعر میں علامہ اقبال نے جوانوں کو ستاروں پر کمند ڈالنے ہی پر نہیں اُکسایا تھا یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ان کے تصور کردہ پاکستان میں ”یوتھ“ کی ایک جماعت اقتدار میں آئے گی، جس کی حکومت خلائی مشن بھیجے گی۔ اب آسمان کے ستاروں پر کمند ڈالنے سے پہلے مشق کے طور پر زمین کے ”فوراسٹار“ تک رسائی ضروری تھی، چناں چہ یہ ضرورت بھی پوری کرلی گئی۔ ان لوازمات کے بعد بس اب خلائی مشن بھیجنا رہ گیا ہے۔

ویسے تو فواد چوہدری صاحب نے اس مشن کی روانگی کا سَن 2022 بتایا ہے، لیکن ہمارے خیال میں اس منصوبے کی تکمیل میں کم ازکم دو چار سال مزید لگ جائیں گے۔ ہوگا یہ کہ خبر آئے گی کہ فلاں تاریخ کو پاکستان کا خلائی مشن روانہ ہوگا اور ”مسٹرجُمن“ وہ پہلے پاکستانی ہوں گے جو خلاء میں قدم رکھیں گے۔ چند روز بعد یہ خبر گردش کر رہی ہوگی، ”مسٹر جُمن کو خلاء میں بھیجنے کے منصوبے سے الگ کردیا گیا، کیوں کہ ان کی نانی ن لیگ سے وابستہ تھیں، مسٹرجمن کا خلائی مشن کے لیے نام سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر انھیں پٹواری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مہم شروع ہوگئی تھی۔ “

پھر اطلاع آئے گی، ”خلائی مشن پر بھائی بشیرے کو بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا، ایک ہفتے بعد“ بھائی بشیرے کو عین موقع پر شٹل سے اُتار دیا گیا، وہ اپنے لوٹے اور دیگر سامان سمیت گھر چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق ایک وفاقی وزیر کے ننھے نے ان سے فرمائش کی تھی کہ واپسی پر چاند پر چرخہ چلاتی بڑھیا کے ساتھ سیلفی بنا کر لائیں، اس خدمت سے معذرت پر مذکورہ وزیر نے وزیراعظم سے بھائی بشیرے کی شکایت کی تھی۔ ”

آخر اللہ اللہ کرکے ایک دن بریکنگ نیوز آئے گی، “ پاکستان کا پہلا خلائی مشن استاد ببن کو لیے روانہ۔ ”چند گھنٹوں بعد ٹی وی چینل چیخ رہے ہوں گے، “ استاد ببن زمین کا مدار پار کرنے کے بعد یو ٹرن لے کر واپس آرہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان سے تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی نے کہا تھا سانوں بھی لے چل نال وے، جس پر انھوں نے جواب دیا۔ چَل بے۔ اس بدتمیزی کی اطلاع وزیراعظم کو دی گئی، جس پر پہلے تو ان سے کہا گیا کہ وہ فوری شٹل واپس بھیج دیں اور خود شٹل سے اْتر کر پیدل آئیں، لیکن وزیراعظم کیوں کہ بہت رحم دل واقع ہوئے ہیں اس لیے انھوں نے استاد ببن کے شٹل میں بیٹھ کر واپس آنے کی ہدایت کردی۔ ”

اْس وقت تک ان خلائی مشنوں پر ٹیکسوں اور چندوں کی شکل میں قوم کا اتنا پیسہ خرچ ہوچکا ہوگا کہ پاکستانی اپنے خالی پیٹ کا خلاء دکھا کر حکومت سے کہیں گے، “ ہم خلاء میں جانے کی خواہش سے باز آئے، سرکار! اب خلاء میں پاکستانی بھیجنے کے بہ جائے ہم پاکستانیوں کے پیٹ کے خلاء میں نوالے بھیجنے کی فکر کریں۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).