مذہب قاضی الحاجات


عربی زبان میں روپیہ اور دولت کو قاضی الحاجات، ضروریات پوری کرنے والا ( کیونکہ روپیہ دے کر اس سے ہر شے خریدی جا سکتی ہے) قرار دیا گیا ہے۔ مگر جہاں تک مذہبی کتابوں میں سے اپنے مطلب کی بات حاصل کرنے کا تعلق ہے، مذہب کو بھی قاضی الحاجات قرار دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ہر مذہبی مجاور اپنی ضروریات کے مطابق اپنے حق میں مذہبی قول پیش دیتا ہے۔ اس سلسلہ کے دو دلچسپ واقعات پیش کرتا ہوں۔

موگا ( ضلع فیروزپور) میں ایک صاحب حکیم الشیرداس تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے طیب تھے، اور دلچسپیوں کے لحاظ سے ان کو موسیقی کا بہت شوق تھا۔ ان کے مکان کے مردانہ بیٹھک میں طبلہ، سارنگی، طاؤس اور ہار مونیم وغیرہ ساز پڑے رہتے، اور شام کو ان کے دوست اپنے کاروبار سے فارغ ہو کر اس بیٹھک میں جمع ہوتے۔ راگ رنگ کی یہ محفل کافی دیر تک گرم رہتی، اور گانا سننے والے کئی دوسرے لوگ بھی جمع ہو جاتے۔

موگا سنگھ سبھا نے فیصلہ کیا، وہ اپنا سالانہ جلسہ بہت شان کے ساتھ منائے۔ اور اس موقع پر دھرم پر چار کرتے ہوئے لوگوں کو امرت چکھایا جائے، یعنی غیر سکھوں کو سکھ مذہب میں داخل کیا جائے۔ چنانچہ جلسہ کو زیادہ کامیاب کرنے کے لئے سنگھ سبھا کے سیکرٹری ( جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا، اور جو موگا کی عدالت میں عرغی نویس تھے ) نے سکھ کنہیا مہا ودیالہ فیروزپور کے مینجر بھائی تخت سنگھ کو خط لکھا، کہ اس جلسہ کے لئے کنہیا مہا ودیالہ کے راگیوں کے جتھے کو موگا بھیجا جائے۔

اس خط کے پہنچنے پر بھائی تخت سنگھ نے اپنے دربار کے راگیوں کو تاکید کی، کہ فلاں تاریخ کو یہ موگا پہنچ جائیں، اور خط کے جواب میں سیکرٹری سنگھ سبھا کو اطلاع دی، کہ راگیوں کا جتھا جلسہ ایک روز پہلے شام کو موگا پہنچ جائے گا۔ تاکہ یہ جتھا نگر کیرتن ( تبلیغ کے سلسلہ میں مذہبی لوگ شہر کے بازاروں میں بھی جلوس نکالا کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو جلسہ کا علم ہو جائے، اسے نگر کیرتن کہا جاتا ہے ) میں حصہ لے سکے۔

اس خط کو پڑھ کر سیکرٹری صاحب مطمئن تھے۔ اور جلسہ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے جلسہ کرنے والے مقامی سکھ شام کو ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے، ٹرین میں سے فیروز پور کے راگیوں کو لے کر وہاں سے نگر کیرتن کا جلوس شروع کیا جائے۔ مگر جب ٹرین موگا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، تو اس میں راگی نہ تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی، کہ راگی اور چارک کلاس عام طور پر غیر ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو یاد ہی نہ رہا، کہ انہوں نے موگا جانا ہے۔ جب راگی نہ پہنچے، تو جلسہ کرنے والے مقامی سکھوں نے مجبوراً صرف ڈھول چھینے (ہاتھوں سے بجائے جاتے ہیں، اور ان کو ایک قسم کا ساز ہی کہنا چاہیے ) بجا کر ہی نگر کیرتن کا جلوس نکال لیا، اور یہ لوگ گرنتھ صاحب کے شبد پڑھتے ہوئے موگا کی منڈی اور بازاروں میں سے جلوس لے گئے۔

نگر کیرتن ختم ہونے بعد سنگھ سبھا کے سیکرٹری اور ان کے ہمراہیوں کو تشویش ہوئی، کہ اگلے روز جب جلسہ ہو گا، تو بغیر راگیوں کے جلسہ میں رونق نہ ہو سکے گی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ان لوگوں نے فیصلہ کیا، اور وہ یہ، کہ حکیم الشیرداس کے پاس پہنچے، اور حکیم صاحب سے درخواست کی، کہ یہ معہ اپنے دوست موسیقاروں اور سازوں کے اگلے روز علی الصبح سنگھ سبھا بلڈنگ میں پہنچ جائیں، اور وہاں گرنتھ صاحب کے شبد پڑھیں، تاکہ جلسہ میں کچھ تو دلچسپی پیدا ہو۔ حکیم الشیر داس بہت با اخلاق اور دلچسپ شخصیت تھے۔ آپ نے اگلے روز علی الصبح سنگھ سبھا میں پہنچنے کا وعدہ کر لیا، اور وقت مقررہ معہ اپنے موسیقاروں اور سازوں کے جلسہ کے شروع ہونے سے پہلے پہنچ گئے۔

جلسہ شروع ہوا۔ اس جلسہ کا مقصد تھا، کہ سکھ مذہب کی تبلیغ کی جائے، غیر سکھوں کو سکھ بننے کے لئے کہا جائے، سنگھ بنانے کی رسم ادا کی جائے۔ یعنی غیر سکھوں کو امرت چکھایا جائے، اور امرت چکھنے والے سکھ مذہب کو ذریعہ نجات قرار دیتے ہوئے بالوں کو نہ کٹوائیں، کیسوں کو رکھنے کچھہرا پہننے اور کنگھا، کر پان اور کڑا اپنے پاس رکھنے کے پابند ہوں۔ جلسہ شروع ہونے پر حکیم صاحب اور ان کے موسیقار دوستوں نے گرنتھ صاحب کے تین چار شبد پڑھے تھے، کہ آپ نے ان شبدوں کے بعد گرنتھ صاحب میں سے ہی بھگت کبیر جی کا یہ شبد پڑھا:۔

کبیر اک پریت سیوں کہئے آن دیدہا جائے
بھاویں لامہے کیس کر بھاویں گھرا منڈائے

اس شبد کے معنی یہ تھے، کہ محبت صرف ایک خدا سے کرنے کی صورت میں ہی دل کی بے چینی رفع ہوتی ہے۔ خدا سے محبت کرنے والا چاہے بال لمبے رکھ لے، یا بالوں کو بالکل ہی اڑا دے۔

جلسہ کا مقصد سکھ مذہب کی تبلیغ کی پہلی شرط یہ کہ بال نہ کٹوائے جائیں، کیونکہ بالوں کے بغیر نجات حاصل نہیں ہو سکتی، اور ادھر حکیم الشیر داس گرنتھ صاحب میں سے ہی ایسا شبد پڑھ رہے ہیں، جو سکھ مذہب کے اصولوں، بلکہ سب سے بڑے اصول یعنی بالوں کی تردید اور مخالفت میں ہے۔ سیکرٹری صاحب سنگھ سبھا بہت پریشان، کہ کیا ہو؟ آپ نے حکیم صاحب سے کہا، کہ آپ یہ شبد نہ پڑھئے، کوئی دوسرا شبد پڑھئے۔ حکیم صاحب بہت پر مذاق شخصیت تھے۔

آپ نے سیکرٹری صاحب سے کہا، کہ کیا یہ شبد گرنتھ صاحب موجود نہیں؟ اور اگر موجود ہے، تو پھر آپ اس شبد کے پڑھنے کی ممانعت کیوں فرما رہے ہیں؟ یا مجھے آپ ہی کوئی دوسرا شبد بتا دیجئے، میں وہ گا دیتا ہوں۔ شبد کے متعلق یہ جھگڑا فضا کو کچھ نا خوشگوار صورت میں تبدیل کرنے کا باعث ہوا، اور چند شبدوں کے گانے کے بعد حکیم صاحب معہ اپنے ہمراہی موسیقاروں اور سازوں کے واپس چلے گئے، اور شام کی نشست جبکہ غیر سکھوں کو امرت چکھانے کی رسم ادا کی جانے والی تھی۔

پچھلی راشن بندی کا زمانہ تھا۔ یو۔ پی۔ کے کانگرسی خیال کے مسلمانوں نے جمعیت العلمائے ہند کے کچھ ممبروں کے اہتمام میں لکھنؤ میں ایک جلسہ کیا۔ اس جلسہ کا مقصد یہ تھا، کہ مسلمان اپنا ووٹ کانگرسی امیدوار کو دیں، جو ایک ہندو تھا۔ کئی ہندو اور مسلمان لیڈروں نے تقریریں کیں، یہ تقریریں ہندو مسلم اتحاد کے حق میں تھیں۔ ان تقریروں کے بعد ایک مولوی صاحب تقریر کے لئے پلیٹ فارم پر تشریف لائے۔ یہ مولوی صاحب ظاہری طور پر کھدر پوش تھے، مگر مذہبی اعتبار سے ہندوؤں اور کانگرس دونوں کے خلاف، بلکہ کچھ جماعت اسلامی ( جو ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندوؤں کے خلاف منافرت پیدا کرنے کے حق میں ہے ) سپرٹ کے تھے۔ آپ نے اپنی تقریر قرآن مجید کی ایک آیت سے شروع کی، اور آیت پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا:۔

” اے ایمان والو! اگر تم ان لوگوں کی فرمانبرداری کرو گئے، جنہوں نے کفر کیا ہے، تو یہ تم کو پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے، اور تم نقصان اٹھا نے والے ہو جاؤ گے“۔

الیکشن کا زمانہ، انتخاب کے لئے جلسہ، ہندو امیدوار اور قرآن کی آیت پڑھی جا رہی ہے، جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے، کہ وہ کافروں ( ہندوؤں ) کی فرمانبرداری نہ کریں۔ تمام کانگرسی پریشان کہ ا س مولوی سے کیا کہا جائے۔ کیونکہ قرآن کی آیت پڑھنے سے تو روکا نہیں جا سکتا، یہ مذہب میں مداخلت ہے۔ اور اگر آیت پڑھنے دی جائے، تو مسلمان ووٹروں کے ہند و امیدوار کے خلاف ہو جانے کا خدشہ۔ مولوی صاحب نے یہ آیت اور اس کا ترجمہ ختم کیا، تو ان سے کہا گیا، کہ اپنی تقریر ختم کریں، وقت بہت تنگ ہے۔

یہ حقیقت بے حد دلچسپ ہے، جس طرح عدالتوں میں وکیل اپنے اپنے حق میں ہائیکورٹوں کے رولنگ پیش کرتے ہیں، اور یہ رولنگ قطعی متضاد ہوتے ہیں۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے مذہبی مجاور بھی اپنے حق میں جو چاہیں، مذہبی کتابوں کے اقوال پیش کر دیتے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں مذہب قاضی الحاجات ہے، ان سے جو چاہو، حاصل کر لو۔

مثلاً اگر سکھ چاہیں، تو گرنتھ صاحب سے ہی سکھ ازم کو ہندو ازم کا مخالف ثابت کر سکتے ہیں، اور اگر ہندو چاہیں، تو گرو صاحب کو کرشن بھگت ثابت کر دیں۔ احراری مسلمان چاہیں، تو قرآن میں سے ہندو مسلم اتھاد کے حق میں آیتیں پیش کر دیں، اور مسلم لیگی مسلمان چاہیں، تو مسلمانوں کو ہی ہندوؤں کا مخالف ثابت کر دیں۔ اور آریہ سماجی چاہیں، تو وہ ویدوں سے بت شکنی کے حق میں اشلوک نکال دیں، اور سناتن دھری چاہیں، تو ویدوں میں سے ہی بتوں کی پوجا ثابت کر دیں۔ مذہبی مجاوروں کی اس مذہب بازی کا نتیجہ ہے، دنیا کا زیادہ حصہ آج مذہب کا مخالف ہے، اور لوگ مجبور ہیں، کہ مذہب سے الگ رہ کر ہی سکون اور اطمینان حاصل کریں۔
کتاب سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon