رمضان، کھیل اور زندگی


\"rabia\”وووہ ہووو۔ یس۔ ونس مور ونس مور\” لگاتار دو چهکوں نے اسکور بنا دیا، اب عادل کی ٹیم بہتر پوزیشن میں تهی، گلی تالیوں اور دوستوں یاروں کی آوازوں سے گونج اٹهی، سب کی طرف سے داد اور مبارکباد وصول ہوئی اور اک اور شاندار ہٹ۔ اس بار عادل مصطفوی نے چوکا مار کر بلیو ڈیولز کو کامیابی دلادی۔ گلی میں لائٹنگ، کهانے پینے کے انتظام اور کراوڈ کے شور میں میچ کا مزہ دوبالا ہوگیا۔

\”یار کل کے میچ میں اورنج لیجنڈز سامنے ہوں گے ہمیں ہر صورت یہ میچ جیتنا ہے ہماری ٹیم کی عزت کا سوال ہے۔ \” ساغر نے عادل کی پیٹھ تهپتپا کر گلے لگایا اور آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی صلاح دی۔ \”ہاں ٹهیک ہے کل ہی دیکهیں گے\”۔ عادل جو میچ کے دوران اور جیت پر خوشی سے پهولے نہ سمارہا تها اب قدرے اداس دکهائی دیا\” کیا ہوا عادل تم پچ پر تو کافی ایکٹو تهے اب یہ اداسی پریشانی کیوں؟\” سوال مکمل ہوا ہی تها کہ اذان کی آواز سنائی دینے لگی، مسجد قریب ہی تهی۔ لیکن رات بهر کے میچ اور تهکاوٹ نے گهر جانے پر مجبور کردیا۔ دونوں نے تیز تیز قدم بڑهانا شروع کردئیے۔ نیند کا غلبہ بهی بڑهتا گیا اس سے قبل ہی گلی کی رونق پلک جهپکتے معدوم ہوگئی تهی۔ عادل اور ساغر آخر میں میدان چهوڑنے والوں میں تهے تاکہ کسی کو کسی بهی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ ہو

\”عادل آج تم پهر اتنی دیر سے آئے ہو، یہ اچهی بات نہیں، ناشتہ بنا دوں ؟سحری کی ؟ روزہ رکها؟\” شفقت، محبت، ناراضی اور تحکمانہ سوالات کے ملے جلے تاثرات لیے ماں نے عادل کے قریب ہونے کی کوشش کی۔ \”کیا ہے مسئلہ؟ کیوں پریشان کر رکها ہے؟ روزہ میرا اور میرے خدا کامعاملہ ہے۔ کیوں ہر وقت سوال کرتی ہیں؟ سکون سے کیوں نہیں جینے دیتیں ؟\” عادل نے بپهرے ہوئے انداز میں ماں کے سامنے چیخنا شروع کردیا۔ ماں نے پانی کا گلاس میز پر رکها اور تلاوت کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئی \”یا اللہ میرا بیٹا نادان ہے، جلد غصے میں آجاتا ہے، روزے اور نماز کا پابند بهی نہیں، لیکن تو تو رحیم و کریم ہے بخشنے والا ہے میرے بیٹے کو بخش دے، اپنے یا میرے معاملے پر اس کی گرفت نہ کرنا، بلکہ ہدایت و نور دے سمجھ دے دین کا علم کا شعور دے اور جن بچوں کے ساتھ اس نے اپنا یہ حال کیا ہے ان کی بهی رہنمائی فرما\” ماں نے دعا میں عادل کے لیے دنیا و آخرت کی بهلائی طلب کی حقوق اللہ اور حقوق العباد معاف کرنے کی دعا کی۔ عادل نے پانی کا گلاس میز پر چهوڑا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ منہ تک چادر اوڑهی اور سو گیا۔

آہ! یہ مجهے کیا ہوا؟ عادل بڑی آنکهوں کو کمرے کے چاروں اطراف گهما کر سمجهنے کی کوشش کر رہاتها۔ دل و دماغ میں جهماکا سا ہوا اور وہ اٹھ بیٹها، مجهے ایسا کیوں لگ رہا ہے میں صدیوں سوتا رہا ہوں۔ مجھ میں کون جاگا ہے کہ جس کا مجهے ادراک نہیں ہورہا عادل خود کلامی کرتے ہوئے واش روم گیا. بے دهیانی میں یا پهر انجان سوچ کے گہرے قبضے میں وضو کیا اور افطار کی جانب آگیا. کهجور کهائی، شربت پیا اور گهر میں ہی نماز پڑهی۔ کهانے کے انتظار میں میز پر گهر والوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اور میاں کیا مصروفیات ہیں ؟ روزے کیسے چل رہے ہیں؟ وہ ابو میچز رکهے ہیں رمضان کے رمضان ۔ ساغر کی ٹیم کا وائس کپتان ہوں کل رات میچ بہت زبردست رہا ہم جیت گئے. اوہ! والد نے گلا صاف کرتے ہوئے مبارک دی۔ پھر دوبارہ پوچھا \”اور روزے؟\” وہ بهی ٹهیک ہیں۔ \”اور قرآن پاک کے کتنے پارے ہوئے؟\” وہ، وہ میں جلد پڑهوں گا۔ عادل نے جواب دیا.

\”دیکهو میاں زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں، ہر اک کو اپنی قبر میں جانا ہے اور ہر بات کا جوابدہ خود ہونا ہے. میں، تمهاری ماں یا بہن بهائی بچانے نہیں آئیں گے.\”

\”جی ابو میں کوشش کرتا ہوں\”.

\”یہ تمهاری ماں کی آنکهیں کیوں سوجی ہیں؟ یہ خاموس اور اداس کیوں ہے؟ رمضان میں ہر عمل کا اجر دگنا ہوتا ہے چاہے عمل اچها ہو یا برا۔ تم تو گهر پر ہی تهے نا کیا ہوا تها؟\”بولو!

لاش کے پاس سے کرکٹ کا سامان بهی ملا ہے۔ اک بار پهر آپ کو بتاتے چلیں علی الصبح مخالف سمت سے آنے والے آئل ٹینکر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار ہلاک ہوگیا۔ ٹی وی پر چلنے والی اس خبر سے تمام گهر والے ہی دنگ رہ گئے۔ فوٹیج میں دکهایا جانے والا مقتول کا شناختی کارڈ اور متعلقہ اشیاء ساغر کی تهیں۔ میز پر کهانا لگ گیا تها لیکن سب کی آنکهیں اور دل کبهی ٹی وی پر اور کبهی عادل پر آکر ٹهہر جاتیں۔ جو بنا آواز رو رہا تها، میں اس کے ساتھ ہوتا تو اسے کبهی مرنے نہ دیتا۔ عادل کے دماغ میں اب کئی باتیں گونج رہی تهیں \”کل جیتنا ہوگا\” \”عزت کا سوال ہے\” ۔\”حئی علی الفلاح\” \”تم نے روزہ رکها\” \”یہ میرامعاملہ ہے\” \”رمضان میں ہر عمل کا اجر دگنا ہے\” \”قبر میں ہم ساتھ نہیں ہوں گے\”۔

سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔

آج ہم ساتھ ہیں کل کس نے دیکهی ہے۔

عادل گہری سوچوں کے ساتھ کچن میں گیا اور ماں سے لپٹ گیا۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments