کیا آپ نے اپنے گرد ہم خیال دوستوں کا حلقہ بنا رکھا ہے ؟


مجھے یہ حقیقت جاننے میں بہت دیر لگی کہ ہم سب کے دو خاندان ہیں۔ ایک خاندان جس میں ہم پیدا ہوتے ہیں اور دوسرا خاندان جو ہم خود بناتے ہیں۔ پہلے خاندان سے ہمارے خون کے اور دوسرے سے دل کے رشتے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں سے دل کے رشتے ہوتے ہیں ان میں سے بعض کے ساتھ ذہن کے رشتے بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے ہم خیال دوست بن جاتے ہیں۔ ایسے دوستوں کے ساتھ ہم نہ صرف خوشگوار شامیں گزار سکتے ہیں بلکہ زندگی کے مختلف موضوعات اور مسائل پر بے تکلفی سے تبادلہِ خیال بھی کر سکتے ہیں۔

ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ مخلص اور ہم خیال دوستوں کا حلقہ ہماری ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایسے دوستوں سے ملنا ہمارے دکھ آدھے اور سکھ دوہرے کر دیتا ہے۔ ٹورانٹو آنے کے بعد میں نے اپنے ہم خیال دوستوں کا ایک حلقہ بنایا ہے جسے میں family of the heart کہتا ہوں۔ آج میں آپ کا تعارف اس حلقے سے کروانا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو بھی ایسا حلقہ بنانے کی تحریک ہو اور آپ بھی ایک صحتمند، بامعنی اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔

ستمبر 2001 میں جب میری کتاب FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM چھپی اور ریڈیو اور ٹی وی پر میں نے انٹرویو دیے تو مجھے بہت سے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے گھر دعوتوں پر بلانا شروع کیا۔ میرے لیے وہ ملاقاتیں بہت دلچسپ تھیں۔ ایک کراچی کی فیمیلی کے گھر جب میں ڈنر کھانے گیا تو بیگم نے کہا ”ڈاکٹر صاحب میں ایک روایتی مسلمان ہوں میں نماز پڑھتی ہوں روزے رکھتی ہوں۔ میں نے کبھی کسی غیر مذہبی انسان کی اتنی مہذب کتاب نہیں پڑھی“۔

اس کے شوہر نے کہا ”بیگم ہماری شادی کو گیارہ برس ہو گئے ہیں اور ہمارے چار بچے بھی ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھتی رہتی ہیں کہ میں نے مذہب کیوں چھوڑا اور میں کیسے ایک سوشلسٹ بن گیا۔ تو آپ یہ کتاب پڑھ لیں۔ یہ ڈاکٹر سہیل ہی کی کہانی نہیں مجھ جیسے بہت سے مسلمانوں کی کہانی ہے جو روایتی مذہب کو چھوٹ کر ایک فری تھنکر انسان بن گئے ہیں۔ “

جب میں بہت سے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں سے مل بیٹھا جو اب مسلمان نہیں رہے تھے تو میں نے سب کو ایک ہی گھر میں دعوت دینی شروع کی۔ آہستہ آہستہ ان آزاد خیال لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ گھر سے ہم رسٹورانٹ میں آ گئے۔ اب پچھلے چند سالوں میں ہم کسی لائبریری یا کسی کمیونٹی سنٹر میں جمع ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ادبی محفلیں کرتے ہیں کبھی موسیقی کی محفلیں سجاتے ہیں اور کبھی سماجی مذہبی اور سیاسی متنازعہ فیہہ موضوعات پر سیمینار منعقد کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اپنے مخالف کی بات سننے کا حوصلہ پیدا ہو اور ایک مکالمے کی فضا بن سکے جس کی ہماری قوم کو بہت ضرورت ہے۔

ہم سال میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں اپنے دوست زاہد کے لودھی فارم پر پکنک کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ فیملی آف دی ہارٹ جو 2001 میں سات افراد سے شروع ہوئی اب اس کے ساری دنیا میں سات ہزار ممبر بن چکے ہیں۔ ان پروگراموں کے اہتمام میں میرے دوست رفیق سلطان اور پرویز صلاح الدین میری بہت مدد کرتے ہیں۔

ٹورانٹو میں میرے ہم خیال دوستوں میں سے ایک حمایت علی شاعر کے بیٹے ڈاکٹر بلند اقبال ہیں جن کے ساتھ میں نے ایک ٹی وی سیریز شروع کر رکھی ہے۔ اس سیریز ”دانائی کی تلاش، کے ہم 35 پروگرام کر چکے ہیں۔ اس پروگرام کے دیکھنے والوں کی بھی تعداد سات گنا بڑھ گئی ہے۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ ہم خیال دوستوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہو تا جا رہا ہے۔

میرے دوستوں کے حلقے کو وسیع کرنے میں آن لائن جرنلزم نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں میرے 150 کالم چھپے ہیں۔ کالم پڑھنے والوں نے نہ صرف مجھے فیس بک فرینڈ بنایا ہے بلکہ بہت سوں نے اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں مشورہ بھی مانگا ہے اور میں نے خدمتِ خلق سمجھ کر ان کی مدد کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں خدا کو نہ ماننے والوں کے ساتھ ساتھ خدا کو ماننے والے بھی میرے قریب آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جلالی دہریوں سے تو ملاقات ہوئی تھی لیکن جمالی انسان دوست سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ پچھلے ایک مہینے میں مجھے دو دعوتیں آئی ہیں۔ ایک دعوت مسی ساگا کے مسلمانوں کی طرف سے اور دوسری ٹورانٹو کے دہریوں کی طرف سے۔ دونوں کی خواہش ہے کہ میں اپنے گرین زون فلسفے پر ایک لیکچر دوں اور ان کے ممبروں سے انسانی نفسیات اور مسائل کے بارے میں تبادلہِ خیال کروں۔

میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔ گرین زون فلسفہ ایک اپنی مدد آپ کرنے کا پروگرام ہے جو میں نے اپنے تیس برس کے پیشہ ورانہ تجربے“ مشاہدے ”مطالعے اور تجزیے سے کشید کیا ہے۔ اس فلسفے پر عمل کر کے میرے سینکڑوں مریض اپنے دکھوں کو سکھوں میں بدل چکے ہیں اور اب ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ اس فلسفے کا ایک اصول یہ ہے کہ ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ہم خیال دوستوں کا ایک حلقہ ناگزیر ہے۔ میں اپنے مریضوں سے کہتا ہوں کہ میں جو فلسفہ انہیں سکھاتا ہوں اس پر خود بھی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری خوش بختی I PRACTICE WHAT I TEACH AND TEACH WHAT I PRACTICE۔

گرین زون فلسفے نے میری ایک صحتمند، خوشھال، بامعنی اور پرسکون زندگی گزارنے میں مدد کی ہے۔
مجھے امید ہے یہ کالم پڑھ کر آپ بھی اپنے ہم خیال دوستوں کا حلقہ اپنی FAMILY OF THE HEARTبنانے کی کوشش کریں گے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail