غیرت زندہ ہے


\"edit\"تمام شور مچانے، فلمیں بنانے، قانون سخت کرنے کی دھمکیاں دینے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سولہ سالہ پرانے اعلامیہ کو دوبارہ جاری کرنے کے باوجود پاکستان کے غیرت مندوں کی غیرت ابلی پڑ رہی ہے۔ وہ پیٹرول کے ڈبے یا تیز دھار اوزار لئے ان ’بے غیرتوں ‘ کی تلاش میں سرگرداں ہیں جنہوں نے خاندان کے نام پر ’بٹہ ‘ لگانے کی کوشش کی اور اہل خاندان کو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ لیکن جب وہ اپنی ہی کسی بیٹی یا بہن کی گردن کاٹ کر فرار ہوتے ہیں، کچھ عرصے بعد پکڑے جاتے ہیں اور پولیس و ملک کے ناقص عدالتی نظام کے شکنجے سے نکلنے کے لئے اپنی جائداد اور جمع پونجی صرف کر بیٹھتے ہیں، تو ان کی پر جوش غیرت کو شاید سکون ملتا ہو۔

تازہ خبر گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے موصول ہوئی ہے۔ اس شہر کے قریبی گاؤں بترانوالی کی مقدس بی بی نے تین سال پہلے اپنی مرضی سے شادی کرلی تھی۔ وہ اپنے شوہر توفیق احمد کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی لیکن اس کے ماں باپ اور بھائی کو ایک ایسی بیٹی اور بہن کا یہ سکون ایک آنکھ نہ بھاتا تھا جو مقدس نے ان کی مرضی کو مسترد کر کے اپنی مرضی سے اپنا شریک حیات چن کر حاصل کیا تھا۔ اس دوران مقدس ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی اور اب سات ماہ کی حاملہ تھی اور کلینک پر اپنا طبی معائینہ کروانے کے لئے گئی ہوئی تھی کہ ماں باپ بھی اس کا سراغ لگاتے وہاں جا پہنچے۔ وہی پرانا ہتھکنڈا اختیار کیا گیا کہ ماں باپ کو اپنے کئے پر شرمندگی تھی اور وہ اپنی بیٹی سے ملنے کو بے قرار ہیں۔ بھولی مقدس ماں باپ کا دل رکھنے کے لئے ان کے ساتھ چلی گئی۔ گھر پہنچتے ہی شفیق ماں باپ نے جلاد کا روپ دھار لیا اور اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر چاقو سے اپنی ہی بیٹی کا گلا کاٹ کر اور اس کا خون بہا کر اپنی توہین کا انتقام لے لیا۔ اپنی ہی اولاد سے انتقام۔ یہ اس معاشرے کا عجیب مکروہ چہرہ ہے جہاں انتہائی قابل احترام رشتوں کا اعتبار اور بھروسہ ختم کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ طے کرنے فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ بیٹیاں ماؤں، باپوں اور بھائیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں۔ کہ یہ رشتے اپنی جھوٹی انا کے اسیر ہو چکے ہیں۔

ابھی لاہور کی اٹھارہ سالہ زینت کی چیخیں مدھم نہ ہوئی تھیں، جسے اس کی ماں اور بھائیوں نے اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی تاکہ آئندہ کوئی زینت اپنی مرضی سے شریک حیات چننے کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔اس کے چند روز بعد لاہور کے ہی ایک ’غیرت مند ‘ باپ نے اپنی بیٹی اور داماد کو قتل کردیا اور اس کے بعد سیالکوٹ میں ایک بھائی نے صرف اس لئے اپنی بہن کی جان لے لی کیوں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ ظالمانہ شدت پسندی کے یہ مظاہر اس مقدس مہینے میں دیکھنے میں آرہے ہیں جب مسلمان اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور سال بھر کے لئے اللہ کی عطا کردہ رحمتیں سمیٹنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ کیا اس ملک کے باسی اس قدر کٹھور اور سنگدل ہو چکے ہیں کہ اب کوئی رحمت ان کے دلوں میں رحم، عفو یا عقل کا احساس پیدا نہیں کر سکتی۔

اس ملک کے مذہبی رہنما اس بات پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے کہ دین کے نام پر کلنک کے یہ سانحات روز افزوں ہیں لیکن ان کی دینی غیرت صرف اس وقت جوش میں آتی ہے جب کوئی عورت اپنے حق کی بات کرتی ہے، جب کوئی اسمبلی عورتوں کی حفاظت کے لئے مردوں کو سزا دینا چاہتی ہے یا جب کوئی 14 سال کی کیلاش بچی ناسمجھی میں عقیدہ بدلنے کا اعلان کرنے کے بعد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہے۔

ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ انسانی زندگی کا احترام کرتا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل شمار ہوتا ہے۔ گویا ایک انسان کو مارنا ایک ایسا گناہ عظیم ہے، جس کی معافی کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن ہمارے اپنے دل ان احکامات پر نرم نہیں ہوتے ۔ ہم اسلحہ اٹھائے، آنکھوں میں وحشت بھرے، ہر وقت انسانی خون کی پیاس میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ پھر بھی مولانا فضل الرحمان اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اعتراض ہے کہ کچھ لوگ اس ظلم کے خلاف بات کیوں کرتے ہیں۔ ان واقعات کا حوالہ دے کر دین کو ’ بدنام‘ کیوں کرتے ہیں۔

مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق گیارہ سو کے لگ بھگ خواتین ہر سال اس بے نام ’غیرت‘ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، جسے نہ قانون قبول کرتا ہے اور نہ دین جس کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مارنا کارنامہ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ آخر یہ سماجی رویہ کیوں کر اس معاشرے میں رواج پا چکا ہے۔ اس علت کو عام کرنے میں اس معاشرے کے سب لوگوں نے تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالا ہے اور جب تک یہ سارے عناصر خواہ وہ پولیس کے روپ میں ہوں، جج کی کرسی پر براجمان ہوں، منبر پر بیٹھا عالم دین ہو یا پارلیمنٹ میں بیٹھا قانون ساز ۔۔۔ اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس ظلم کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک مہذب قوموں میں ہمارا شمار محال ہے۔

اورلانڈو کا قتل عام ہو یا دنیا میں کسی دوسری جگہ پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ، ہر مسلمان حقائق سامنے آنے سے پہلے دعا کرتا ہے کہ اس میں کوئی مسلمان ملوث نہ ہو، کوئی پاکستانی نہ ہو ۔۔۔ ورنہ الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اسلام کا نرم خو چہرہ مسخ کرکے پیش کیا جائے گا۔ لیکن وحشت کا جو کھیل ہم غیرت کے نام پر کھیل رہے ہیں اور جسے اپنے عقیدے اور رواج کا نام دیتے ہم ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے، اس کے ہوتے ہمیں اس بات کا خوف کیوں رہتا ہے کہ ہمارے عقیدے کا نام بدنام نہ ہو۔ ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ دور دراز بیٹھے نوجوان بھی خوں ریزی کی اس روایت اور ثقافت کو بھلاتے نہیں جو دین اور سماجی روایت کے نام پر ہم نے اپنے معاشروں میں عام کی ہے۔ آخر کب تک ہم یہ ڈھونگ رچا کر خود کو اور دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments