اسلام آباد سے غائب ہونے والے ایس پی محمد طاہر خان کہاں ہیں؟


داوڑ

                                                     محمد طاہر داوڑ کی بیٹیاں ان کے بھائیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا پولیس کے ایس پی محمد طاہر خان داوڑ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پراسرار طورپر لاپتہ ہوئے تقریباً دو ہفتے بیت گئے ہیں، لیکن ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پشاور پولیس کے افسر محمد طاہر خان داوڑ چند دن پہلے مختصر رخصت پر اسلام آباد میں واقع اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔

ان کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ وہ دن کے وقت چہل قدمی کے لیے نکلے، لیکن اسلام آباد کے تھانہ رمنا کی حدود سے پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے۔ اس کے دو دن بعد ان کے خاندان کو محمد طاہر ہی کے موبائل فون سے انگریزی زبان میں ایک ٹیکسٹ پیغام آیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پنجاب کے شہر جہلم کے کسی علاقے میں ہیں اور چند دن کے بعد گھر واپس آجائیں گے۔ لاپتہ افسر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ پیغام طاہر داوڑ کے فون سے ضرور بھیجا گیا تھا، لیکن پیغام کا متن اور الفاظ کسی اور نے لکھے تھے۔ بقول ان کے، طاہر داوڑ زیادہ تر اردو زبان میں پیغام بھیجتے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی طرف سے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے، تاہم وفاقی پولیس ابھی تک ان کی بازیابی کے ضمن میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

پچاس سالہ محمد طاہر خان داوڑ کی ترقی تقریباً دو ماہ پہلے ہوئی تھی اور وہ پشاور میں ایس پی (رُورل) کے عہدے پر فائز کیے گئے تھے۔ اس سے پہلے وہ محکمہ پولیس میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر ملازمت پشاور سے دور صوبے کے مختلف اضلاع میں کی ہے۔ طاہر خان داوڑ دو مرتبہ شدت پسندوں کے حملوں میں زخمی ہوچکے ہیں۔ ایک مرتبہ بنوں میں ان کے گھر پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہے، جبکہ دوسری مرتبہ ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے ہاتھ اور پاؤں پر گولیاں لگی تھیں۔ بتایا جاتا ہے ایک مرتبہ وہ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے ‘ فرینڈلی فائر’ کا نشانہ بھی بنے۔ طاہر خان داوڑ کو تمغہ قائد اعظم سے بھی نوازا گیا۔

محمد طاہر داوڑ

طاہر داوڑ کے قریبی ساتھی اور داوڑ قومی جرگہ کے چیئرمین سمیع اللہ داوڑ کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونے سے چند دن قبل طاہر خان دواڑ نے اپنے فیس بک صحفے پر لکھا تھا کہ ‘وہ عزت کی نوکری کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ لمبی چھٹی پر جانا چاہتے ہیں’ تاہم انہوں نے یہ پوسٹ کیوں کی اور اس کی وجوہات کیا تھیں اس بارے میں وہ تاحال لاعلم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پوسٹ سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی بات ضرور تھی جس کی وجہ سے وہ ایسی پوسٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔

بعض قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ گمشدہ پولیس افسر قبائلی نوجوانوں کی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی لگتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کی حمایت میں کچھ پوسٹیں بھی گئی تھیں۔ تاہم لاپتہ صحافی کے رشتہ داروں نے وضاحت کی ہے کہ طاہر خان داوڑ ایک فرض شناص سرکاری افسر ہیں اور ان کا پی ٹی ایم سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ انھوں نے کبھی ان کی حمایت یا معاونت کی ۔

محمد طاہر داوڑ

وزیرستان کے بعض صحافیوں کا موقف ہے کہ پی ٹی ایم کے بیشتر رہنما وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ان سے ملنے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ادھر قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے مختلف جرگوں اور تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ طاہر داوڑ کو فوری طورپر بازیاب کیا جائے بصورت دیگر تمام قبائل اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

منگل کو پشاور پریس کلب میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرستان قومی جرگے کے سربراہ حاجی جلال وزیر نے کہا کہ محمد طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا ہوئے دس دن ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک کوئی حکومتی ادارہ ان کا سراغ نہیں لگا پایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد سے کسی افسر کا اس طرح دن دہاڑے اغوا ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے اور مرکزی حکومت کو بھی اس اغوا سے کسی صورت بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پریس کانفرنس میں محد طاہر داوڑ کی بیٹیوں اور بھائیوں نے بھی شرکت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp