بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے


\”\"leenaپوری دنیا ہمیں سلام کرتی ہے۔ کوئی ہمارے ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو ہم اس کی آنکھیں نکال دیتے ہیں۔ ہم جہاں چاہیں اپنے دشمن کو نشانہ بنا کر ڈرون سے اس کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔ دنیا بهر کے لوگ ہمارے ملک کی شہریت کے لیے ترستے ہیں۔ ہمارے پاس دولت ہے، ایجادات ہیں۔ اور تم، تمہارے پاس کیا ہے؟ بھوک، افلاس، لاقانونیت، بهتہ خوری، جہالت، تنگ نظری، کرپشن، دھوکہ دہی اور دہشت گردی کے علاوہ تمہارے پاس ہے کیا؟\”

ہمارے پاس، ہمارے پاس میٹرو ہے بابو!

تم کیا جانو فرنگی بابو اس میٹرو کی اہمیت، اس کی کرامات ہمارے وزرا سے پوچھو اور اب تو اورنج ٹرین کے لیے بھی اربوں کی سڑکوں کی ادھیڑ بن شروع ہے۔ پهر دیکھنا ملک کیسے جنت کا نقشہ پیش کرے گا۔

یہ مکالمہ ہم کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ساتھ ماتھے پر کسی شکن اور بغیر کسی شرمندگی کے کرنے کی ہمت اور قدرت رکھتے ہیں۔ جہاں آپ حکومتی اعمال سے میٹرو کی توصیف کے اتنے ڈونگرے سن ہی چکے ہیں وہاں شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ پنڈی اسلام آباد میں اس کی تعمیر سے جنم لینے والا ہزاروں یا شاید لاکھوں ٹن ملبہ مسلسل کئی ماہ نالہ لئی میں ڈالا گیا۔ جس کی وجہ سےمون سون کی بارشوں میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا اور اس خدشہ کے پیش نظر نالہ لئی کی صفائی کا کنڑول واسا کے حوالے کیا جانے کا مشورہ تھا تاکہ ہنگامی بنیادوں پر لئی کو پرانی حالت میں لایا جا سکے اور سیلاب کو گذشتہ سالوں میں زیر آب آنے والے علاقوں تک ہی محدود رکھا جائے۔ اس کی صفائی کا اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ہمارے وزیر اعظم جب اپنے خواب غفلت سے بیدار ہوں تو اتنے سارے پانی کو دیکھ کر ایک بار پهر بوکهلاہٹ میں یہ نہ کہہ بیٹھیں کہ نہ جانے کہاں سے آیا اتنا پانی۔۔۔

ان کی معصومیت پر قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔ ان کی یہ بات اتنی ہی معصومانہ لگی تھی جتنی ہمیں ہمارے برادر خورد کی لگتی تهی جب وہ لگ بهگ ساڑھے تین برس کا تھا اور اکثر اپنا بستر گیلا کر دیتا تھا اور پهر اس بات سے انکاری ہوتا تھا کہ اس نازیبا حرکت میں اس کا ہی کارنامہ ہے تب وه کہتا تھا کہ نجانے کہاں سے آیا یہ پانی۔

تاہم پچھلے سال سیلاب پھر آیا اور تباہی کی سالانہ داستان پھر رقم ہوئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیلاب گزرنے کے اتنے ماہ بعد بھی میٹرو کا ملبہ ابھی بھی نالہ لئی کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہا ہے۔ اس سال بھی نالہ لئی کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے چند ایک کا اضافہ بھی ہو جائے۔ ہماری حکومت ہر سال کی طرح اس سال بھی وه ہی کرے گی جو ہر سال کرتی ہے یعنی کچھ بھی نہیں۔

\"nala\"ہر سال لوگوں پر آنے والی قیامت سے کون سا ان ارکانِ اسمبلی پر فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ سیلاب کی زد میں آ کر نہ تو ان کے بچے مرتے ہیں،نہ ہی ان کی جمع پونجی پانی بہا کر لے جاتا ہے،نہ ہی ان کو کھڑی فصلیں تباہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کو اپنے سروں سے چهت چهن جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کی یہ بات قطعی پسند نہیں کہ ہر بات پر حکومت کو کوسنے دینے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب اس میں حکومت بیچاری کا کیا قصور ؟ اگر لوگ گرمی سے مرتے ہیں یا سیلاب سے۔ یہ تو اللہ کی کرنی ہے۔ بندہ اور یہ حکومت کیا کر سکتی ہے۔ اس سیلاب سے کتنا جانی مالی نقصان ہو گا یہ تو اللہ ہی جانے لیکن اس سے ہمارے وزرا کو بہت فائدہ ہو گا۔ ان کے ہاتھ ایک نادر موقع لگ جائے گا تصاویر بنوانے کا۔ تصاویر بھی ایسی جن میں انہوں نے یہ زرد رنگ کےلمبے لمبے پلاسٹک کے بوٹ پہنے ہوں گے اور ان ہی بوٹوں سمیت وہ پانی میں اتریں گے اور ساتھ ان کے میڈیا والے ان کی پل پل کی خبر دینےکو بے تاب ہوں گے جو ان وزرا کی پبلسٹی کو چار چاند لگا دے گی اور ایک بار میڈیا والے ایسے مواقعے اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کر لیں تو اس کو بوقت ضرورت وزرا اپنی مرادیں بر لانے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

گذشتہ سال نالہ لئی کی طغیانی کا سبب میٹرو بس کا ملبہ قرار پایا۔ لیکن اب کے برس کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ میٹرو کو یا اس کے بنانے والوں کو یا پهر اس عوام کو جو ان نمائندوں کو منتخب کر کے لائے۔

خیر واسا اس سال پھر سیلاب آنے سے چند روز قبل نالہ لئی کی صفائی کے جتن کر رہی ہے۔ ایک اور ہفتہ صفائی منایا جا رہا ہے لیکن جب غلاظت برسوں کی ہو تو ہفتہ صفائی منانے سے کیا حاصل۔ جب تک اسمبلی میں بیٹھنے والے ارکان کی سوچ، دل اور دماغ کی صفائی نہیں کی جائے گی اس وقت تک عوام کو آئے روز بہت سے سیلابوں کا سامنا کرنا ہو گا کچھ اس کی زد میں آکر جان کی بازی ہار جائیں گے اور جو بچ گے وه اگلے سال سیلاب کے منتظر رہیں گے۔ ہمارے خیال سے تو واسا کو سیلاب کے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہیے۔ کیونکہ سیلاب کی وجہ سے میٹرو کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میٹرو کے افتتاح کے موقع پر جناب عزت مآب نوازشریف نے فرمایا تھا کہ یہ پاکستان جیسا نہیں لگتا۔ وزیراعظم صاحب اگر آپ چاہتے ہیں کہن ایک بار پهر پاکستان، پاکستان جیسا نہ لگے تو ہمارا نیک مشورہ مان لیجیئے اور واسا کو حکم صادر کر دیجئے کہ وه نالہ لئی کی صفائی سے باز رہے بلکہ نالہ لئی کو مزید مٹی سے بهر دیا جائے۔ تاکہ اردگرد کے مناظر جو کہ میٹرو کی خوبصورتی کو ماند کررہے ہیں یعنی کہ گندگی کے ڈھیر، بوسیدہ عمارات، لوگوں کی مفلسی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، تاریکی میں ڈوبے گهر اور لوڈشیڈنگ کے مارے فحاشی پھیلاتے نیم برہنہ لوگ سب پانی کی دیوار کے پیچھے یا اس کے نیچے چھپ جائیں۔

ذرا خود سوچیں جب میٹرو کی ارد گرد کی تمام تر بدصورتی پانی میں چھپ جائے گی اور درمیان میں چلے گی چھم چھم اربوں کی سرخ میٹرو تو کیا حسین منظر بنے گا۔ تصور کیجئے شام کا پہر ہے سورج ڈوب رہا ہےاور آپ میٹرو بس پر سوار ہیں اور تاحد نگاه پانی ہی پانی ہے۔ آپ کا دل پهر ایک بار پکار اٹهے گا کہ یہ منظر پاکستان جیسا نہیں لگتا۔ ہاں اگر کہیں کسی \’کمی کمین\’ پاکستانی کی لاش تیرتے ہوئے نظر آ جائے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیجئے۔ اس ہی طرح جس طرح عوام کے مسائل کو کیا جاتا ہے۔ بس آخر میں آپ سے ایک التماس کہ اپنے ساتھ کسی حساس شخص کو اپنا ہمسفر بنانے سے مکمل پرہیز کریں۔ کہیں وه اس منظر کو کچھ اس طرح بیان نہ کر ڈالے

 اس طرف شہر، ادھر ڈوب رہا تھا سورج

کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments