اب نہیں آئے گا گلیوں میں غبارے والا؟


جب میں بچہ تھا، تو اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ بچوں کے لیے کہانیاں ناول لکھا کرتے تھے۔ بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، پھول، تعلیم و تربیت نامی رسائل شایع ہوا کرتے تھے. صوفی تبسم کے ٹوٹ بٹوٹ بھی سانس لیتے تھے، اور میری نانی اماں بھی کہیں خلا میں تکتے، ادڑا بھائیا ( ادھورا آدمی/ بھائی) پچھل پیری کی کہانیاں سناتی تھیں۔ رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. ان سب نے میرا تجسس بڑھا کر مجھے غالب، داغ، پریم چند، منٹو، کرشن کی جادو نگری کے حوالے کر دیا؛ آگے کی جانے خدا۔

پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن پہ چاہے جتنے بھی اعتراض کرلیں، یہ مت بھولیے بڑے بچوں یعنی والدین کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے۔

نونہال اور تعلیم و تربیت اب بھی شایع ہوتے ہیں. انھیں پڑھ کر پانچ چھہ سال کی عمر کا بچہ تو مطمئن ہو جائے گا، اس کے بعد اندھیرا ہے۔ اشتیاق احمد، توقیر جبار، اے حمید سبھی مر چکے. آج کا پی ٹی وی بھی کمرشل ازم کے سیلاب میں بہ گیا۔ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں یہی چینل اول و آخر تھا، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں؛ ستم بالائے ستم کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر بچوں کے پروگرام کا ’اسپاٹ‘ ہی نہیں۔

پاکستانی بچے ’بچوں کے پروگرام‘ کے نام پر صرف غیر ملکی چینل دیکھتے ہیں، وہ کارٹون سیریز جو ہمارے بچپن میں بھی تھے؛ ’پوپائے دی سیلر‘، ’وُڈی وُڈ پیکر‘، ’پِنک پینتھر‘، ’ٹام اینڈ جیری‘ کے علاوہ، اب ’ڈورے مان‘ وغیرہ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر عمر کے بچوں کے لیے انگریزی زبان میں اعلا معیار کی فلمیں بھی دست یاب ہیں؛ یا ہندی زبان میں ڈب ہوئے پروگرام۔ کتابوں کی دُکانوں کا چکر لگائیے، آٹھ دس سال کے بچے کے لیے اردو زبان میں خال ہی معیاری ادب دکھائی دے گا؛ انگریزی زبان کا ریک دیکھیے، دل باغ باغ ہو جائے گا۔

کہنے کو یہ بات اچھی لگتی ہے، کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں؛ جی بالکل پڑھیے، چہ خوب۔ لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں، جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آئے گی۔

’رانجھن ہونا‘، ’کچا گھڑا‘، ’عمرو عیار کی زنبیل‘، ’توتے میں جان ہونا‘، ’قارون کا خزانہ‘، ’سامری‘، ’فرعون ہونا‘، ’یزید بن جانا‘، ’کربلا‘، ’جنم جنم کا ساتھ‘، ’ہولی کھیلنا‘، ’کھجور میں اٹکا‘، جیسے استعارے، تشبیہات، علامتیں، محاورے؛ چند لفظوں، چند سطروں میں ایسا مضمون باندھنا کہ ابلاغ ہو۔ کہا جاتا ہے، کہ ہندستان میں اہل عرب، فارس، وسط ایشیا سے آمد و رفت ہی نے مختلف اقوام کے مابین رابطے کی زبان اردو کو جنم دیا، تو غیر ملکی اقوام نے سندھ یعنی ہند کی تہذیب پہ اپنے اثرات چھوڑے، اور ان کی اساطیر سے بہت سے استعارے، تشبیہات، محاورے در آئے۔ ’سگِ لیلٰے‘، ’مجنوں ہونا‘، ’حاتم طائی ہونا‘، وغیرہ دو تین مثالیں ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ گنگا جمنی تہذیب پہ، شمال سے داخل ہونے والوں کے اثرات نسبتہ کم ہیں؛ اسی طرح ہم نے یوروپ سے آئے آقاؤں کی اساطیر سے علامتوں، استعاروں کو قبول کیا، لیکن عوامی سطح پہ عربی فارسی اساطیر سے جتنی امثال دی جا سکتی ہیں، اتنی انگریزی زبان کی داستانوں سے نہیں ملتیں۔

’ٹارزن‘ کا حوالہ عام آدمی سمجھ لیتا ہے، ’بروٹس یو ٹو‘ کو پڑھے لکھے طبقے کی بھی بالائی سطح پہنچ سکتی ہے۔ اردو زبان جن زبانوں کے زیر اثر رہی، اساطیر کے لیے بھی انھی کی محتاج ہوئی. یہ تو کلیہ ہے، کہ کسی بھی زبان کو بام عروج پہ پہنچانے کے لیے اس کا ادب و فنون زینہ بنتا ہے۔ کیا ہمارا فنون و ادب بانجھ پن کا شکار ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran