ریلوے کے دبنگ وزیر شیخ رشید کے لیئے کچھ مشورے


سال دو ہزارعیسوی کے بعد سے اگر حساب کریں تو رٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی، غوث بخش مہر، شمیم اختر، شیخ رشید، منصورطارق، سردار مہتاب عباسی، غلام احمد بلور، عبدل مالک کاسی اور خواجہ سعد رفیق پاکستان ریلوے کے وفاقی وزیر رہے ہیں۔ ان میں سے شیخ رشید احمد اور خواجہ سعد رفیق کے دور کو چھوڑ کے باقی سب کے دورحکومت میں پاکستان ریلوے ایسی تباہ وبرباد ہوئی کہ نہ پوچھیں۔

میں نے ہم سب پر ہی کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا کہ پاکستان ریلوے کی ماضی قریب میں سب سے بڑی تباہی محترمہ بی نظیر بھٹو کی شہادت کے دن سے شروع ہوئی جس دن ان کی شہادت پر احتجاج کرنے والوں نے اور چیزوں کے علاوہ پاکستان ریلوے کو تہس نہس کر دیا۔ بوگیاں، انجن، اسٹیشن، مال گاڑیاں جلا دی گئی، ریلوے ٹریک ادھیڑ لئے گئے اور پاکستان میں اس دن سے ٹرین ایسی پٹری سے اتری کہ اگلے کئی سال پھر اپنے پیروں پہ واپس نہیں آئی۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی اگلی پانچ سالہ حکومت میں بھی بجائے ٹھیک ہونے کے مزید ابتر ہو گئی اور اس وقت وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور صاحب کے منہ سے کبھی نہیں سنا کہ وہ ریلوے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماضی قریب کی تاریخ میں سعد رفیق اور شیخ رشید دونوں نے ریلوے کو اپنے اپنے دور میں سنبھالا بلکہ اس کی بہتری کے لئے بھرپور کوشش کی، شیخ رشید نے اپنے پچھلے دور حکومت میں ریلوے کے لئے بہت کام کیا اور سعد رفیق نے 2008 سے 2013 تک تباہ، برباد کی گئی پاکستان ریلوے میں جان ڈالی۔ اب ریل کا محکمہ ایک مرتبہ پھر شیخ رشید کے ہاتھ میں ہے اور ان کی دو مہینے کی کارکردگی ہی قابل تعریف ہے۔ ایسا لگ رہا شیخ رشید کو ریل کے ساتھ عشق ہے، سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ سب صوبوں کا سوچ رہے ہیں اور سندھ کے ایسے روٹس پر بھی ان کی نظر ہے جن پر پچھلے دور میں دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔

سیاست کے لحاظ سے شیخ رشید ہر فن مولا ہیں مگر وزیر ریلوے بننے کے بعد لگتا ہے انہوں نے اپنا ایجنڈا محدود کر دیا ہے اور ان کی دن رات صرف ریلوے پر توجہ ہے۔ کچھ روز پہلے تحریک لبیک نے جب تین دن ملک کا نظام جام کردیا تھا اس وقت بھی شیخ رشید کراچی سے دھابیجی لوکل ٹرین چلانے کے انتظامات میں لگے رہے اور ان ہی دنوں اس کو شروع بھی کروایا۔ ریلوے کے ساتھ شیخ رشید کا عشق دیکھ کر مجھے بھی خیال آیا ہے کہ کچھ تجویزیں ان تک اس مضمون کے توسط سے پہنچاؤں تو لاکھوں لوگوں کا بھلا ہوگا۔ نیچے دی گئی تجاویز پر پاکستان ریلوے کا کوئی پیسا خرچ نہی ہوگا بس صرف دلچسپی لے کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

۔ 1 کراچی میں ایئرپورٹ ریلوے اسٹیشن کو مکمل بحال کرکے اس کو کام میں لایا جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کراچی میں جب بھی کوئی ہڑتال، جلوس، احتجاج ہوتا ہے اور شاہراہ فیصل بلاک ہوتی ہے تو، ایئرپورٹ آنے جانے کا رستہ بند ہو جاتا ہے اور ایئرپورٹ پورے شہر سے کٹ جاتا ہے۔ اس وقت ان لوگوں کی حالت انتہائی خراب ہوتی ہے جن کی فلائیٹس ہوتی ہیں، کوئی عمرے پر جا رہا ہوتا ہے، کوئی حج پر، کوئی یورپ کوئی امریکا، کوئی ایمرجنسی میں مسافر ہوتا ہے تو کوئی برسر روزگار، ایئر لائن والے اور باہر ملکوں والے یہ نہیں دیکھتے کہ کراچی میں ایئرپورٹ جانے کا رستہ بند تھا، حال ہی میں تحریک لبیک والے احتجاج میں ہزاروں لوگ، ایئرپورٹ نہ جا سکنے پر رُل گئے۔

ویسے بھی شاہراہ فیصل ٹریفک جام کی وجہ سے اکثر بند رہتی ہے، کم از کم ایئرپورٹ جانے والوں کے لئے پہلے سے موجود مگر غیر فعال ایئرپورٹ ریلوے اسٹیشن کو بحال کرکے اس پر ہر آنے جانے والی ٹرین کا اسٹاپ کیا جائے گا تو یہ شیخ رشید کا شاندار کارنامہ ہوگا۔ اندرون ملک سے بھی کافی لوگ خاص کر عمرے اور حج پر جانے والے کراچی میں بھاری سامان کے ساتھ اسٹاپ نہ ہونے کی وجہ سے ایئرپورٹ اسٹیشن سے گزرتے ہوئے کینٹ اسٹیشن پر اتر کر واپس ایئرپورٹ آتے ہیں، جن سے ان کو کافی تکلیف ہوتی ہے، پیسہ اور وقت علیحدہ برباد ہوتا ہے اور اگر شاہراہ فیصل بند ہو تو پھر تو ان مسافروں کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔

اس لئے اندرون ملک سے آنے والی ٹرینوں کا ایئرپورٹ اسٹیشن پر اسٹاپ ہوگا تو ریل سے اتر کر مسافر سیدھا جہاز تک پہنچ سکیں گیں، یا جہاز سے اتر کر ٹرین ٹکٹ لے کر ملک کے دوسرے شہروں کو جا سکیں گے۔ ان کو سامان کے ساتھ پورا شہر کراس کر کے کینٹ اسٹیشن جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس لئے اسٹیشن بھی موجود ہے، ریلوے لائن بھی موجود ہے، ہر ٹرین اسی لائن سے گزرتی ہے، بس فیصلہ کرنے کی دیر ہے۔

اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوگا کہ ایئرپورٹ ریلوے اسٹیشن سے جناح ٹرمنل صرف دو کلومیٹر دور ہے، اگر یہ دو کلو میٹر ریلوے لائن بچھا کر کینٹ اسٹیشن سے ایئرپورٹ، ہرایک گھنٹے بعد بھی لوکل ٹرین چلے تو پورے پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلا حل ہو جائے گا۔ لیکن اگر ٹرمینل تک فی الحال ٹرین نہ بھی چلائیں تو بھی ایئرپورٹ ریلوے اسٹیشن تو موجود ہے ہی اور سب ٹرینیں بھی وہیں سے گزرتی ہیں، بس احساس کرنے، دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے، اس کے حل کے لئے فیصلہ کرنے کی دیر ہے۔

شیخ صاحب، کراچی ایئرپورٹ کو ریلوے لائن سے جوڑنے کا کام اگر ہو جائے تو آپ کا نام تاریخ میں یاد رہے گا کہ یہ انتہائی اہم کام شیخ رشید کر گیا۔

۔ 2 شیخ رشید صاحب نے شکایت کی ہے کہ لوگ پورے شہر سے آکر اسٹیشن پر یا اس کے ساتھ بیٹھ کر مفت انٹرنیٹ وائی فائی استعمال کر رہے ہیں جس سے یہ نظام متاثر ہو رہا ہے، شیخ رشید صاحب اس کا آسان حل پوری دنیا میں رائج ہے، یہاں بھی وہ رائج کر دیں۔ اسٹیشن یا ٹرین میں نیٹ استعمال کرنے والے کو اس کی ویلڈ ٹکٹ کے ساتھ منسلک کردیں، جب مسافر اپنی ویلڈ ٹکٹ کا نمبر انٹر کریں تو ہی اس کا انٹرنیٹ چلے۔

۔ 3 ٹرینوں میں فقیروں کی ایک بہت بڑی تعداد آتی ہے، وہ لوگ چوری بھی کرتے ہیں، موبائل فون، پرس، چھوٹے سامان تو روز غائب ہوتے ہیں، بھکاری چھوٹے بچے، عورتیں سب اے سی سلیپر تک میں گھس آتے ہیں، کراچی کینٹ اسٹیشن پر تو یہ سب عام ہے۔ پلیٹ فارم پر فقیروں کے ٹولے اور ٹرینوں میں بھی لاتعداد فقیر یہ ریلوے پولیس کی ملی بھگت کے سوا ممکن نہیں، ان سے مسافروں کو چھٹکارا دلائیں۔ چوریاں بھی کم ہوجائیں گی، اس کا آسان حل یہ ہے کہ فقیر کی ریلوے اسٹیشن کی حد میں موجودگی کو انچارج پولیس آفیسر کی معطلی سے منسلک کردیں، پھر دیکھیں ایک فقیر اسٹیشن کی حد میں نظت نہیں آئے گا۔

۔ 4 اسٹیشنوں پر بکنک کا نظام بہت سست ہوتا ہے، مجھے کینٹ اسٹیشن کراچی پر بکنک کرانے کا اتفاق ہوا، نظام اچھا ہے کہ اب ٹوکن سسٹم ہے مگر میرا 20 نمبر آگے والا ٹوکن نمبر دو گھنٹے میں بھی نہیں آیا جب کہ کاؤنٹر بھی 5 کھلے تھے، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ایک نمبر ٹوکن کو پکارنے کا بٹن دباتے ہیں اور تین نمبر بغیر ٹوکن والوں کو ٹکٹ دے رہے تھے۔ اس منافقت کی وجہ سے بکنک کرانے والے بیزار ہو رہے تھے اور سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بے بس تھے صرف یہ کہہ رہے تھے کہ ٹوکن سسٹم کا پھر کیا فائدہ؟ اس کا حل یہ ہے کہ ٹکٹ پر ٹوکن نمبر لکھا جائے، اس کے بغیر ٹکٹ سسٹم کام نہ کرے۔

۔ 5 ملک بھر میں ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن کا نام صرف ایک یا دو جگہ لکھا ہوتا ہے، گاڑی اسٹیشن پر کھڑی ہوتی ہے پھر بھی پتہ نہیں چلتا کہ کہاں پہنچھے ہیں اور کھڑکی سے باہر پوچھنا پڑتا ہے، بھائی کون سا اسٹیشن ہے؟ یورپ وغیرہ میں اسٹیشن کا نام ہر دس فٹ بعد دیواروں، سائین بورڈس، کھمبوں پر لکھا ہوتا ہے، حالانکہ وہاں اناؤنسمنٹ بھی ہوتی ہے کہ کون سا اسٹیشن گزر گیا کون سا آنے والا ہے، پاکستان میں اسٹیشنوں پر جگہ جگہ اس اسٹیشن کا نام لکھوائیں تو بھتر ہو گا اور اس لکھے گئے نام پر بلب کی روشنی بھی ہونی چاہیے ورنہ یہ رات کے وقت بے فائدہ ہوگا۔

۔ 6 مختلف اسٹیشنوں پر اور خاص کر کے لاہور اسٹیشن پر انڈے اور چائے بیچنے والے، ٹرین میں چڑھ آتے ہیں، ایئرکنڈیشن ڈبوں، بلکہ اے سی سلیپر تک میں اندر آکر آوازیں لگاتے ہیں، زور زور سے دروازے بجاتے ہیں، کچھ کہا جائے تو بد تمیزی کر تے ہیں، ایک فیملی نے مجھے بتایا کہ وہ ناران سے دوپہر کو چلے، بچے تھکے ہوئے تھے، بلکہ پہاڑوں کی اونچ نیچ کی وجہ سے شدید الٹیاں بھی کی تھیں، رات کو دس بجے راولپنڈی اسیٹشن پھچے، دوائیں کھائیں، کچھ سکون ملا، رات کو دو بجے خیبر میل میں اے سی سلیپر میں کراچی کے لئے روانہ ہوئے، سکون کا سانس لیا، آرام کی نیند سوئے ہوءے تھے کہ صبح سویرے لاہور اسٹیشن پر پورے اے سی سلیپر میں جو ہے ہی سلیپر، انڈے، پراٹھے، چائے بیچنے والوں نے طوفان بد تمیزی مچا دیا، نہ بیمار کا خیال نہ اس کلاس کی پرائیویسی کی پرواہ جس کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اب یہ عام ہے، ریلوے حکام کو اس شکایت پر قدم اٹھانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).