یہ داغ داغ تبدیلی ۔۔۔


یہ وہ تبدیلی نہیں جس کی توقع کی جا رہی تھی، یہ وہ حکومت نہیں جس کی ملک کے عوام کو امید تھی یہ وہ سرکار نہیں جس کے آسرے پر لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف المعروف پی ٹی آئی کو اکثریتی پارلیمانی جماعت بننے کی راہ ہموار کی تھی۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تبدیلی سرکار آئے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کرپشن سے پاک حکمران آئے ہوں اور عوام کا جینا دو بھر ہوجائے، یہ کیوں کر ہوا کہ عوام کی نمائندہ حکومت ہونے کے دعویدار ابھی تک، یوٹرن پالیسی، ترک نہیں کر پائے، کیوں بھئی! یہ سب کیا کر رہے ہیں آپ؟

کپتان سرکار آخر کب ہوش کے ناخن لے گی؟ کیا ہر اہم قومی اشو پر یو ٹرن لینا کوئی اچھی روایت ہے؟ کیا آپ پانچ برس کا عرصہ بس ایسے ہی یوٹرن پر یوٹرن لیتے اور پھر ان یوٹرنز کی وضاحت کرتے گزار دیں گے یا پھر کسی قسم کی میچوئرٹی کا مظاہرہ بھی کریں گے؟

کپتان سرکار کی حالیہ حرکتوں نے پوری قوم کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ایک فیصلہ سنایا جس کے خلاف مذہبی عناصر سڑکوں پر نکل آئے تین دن تک کاروبار زندگی معطل رہے، وزیراعظم صاحب نے قوم سے بڑی عجلت میں خطاب کیا اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے دھرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا دو ٹوک اعلان کیا پھر کیا ہوا اگلے ہی دن حکومتی وزیر و مشیر، احتجاج پر بیٹھے پیر صاحبان کے پیر پکڑنے پر اتر آئے اور کافی منت سماجت کے بعد بالآخر ایک معاہدہ کرکے ٹی ایل پی کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے اور معاہدہ کرکے وقتی طور پر اپنی جان چھڑائی۔

یہ تو آپ کی حالت اور طاقت ہے، پھر یہ کھوکھلی سی دھکمیاں دینے کی ضرورت ہی کیا تھی، حکومت نے اگر مذاکرات کرنے تھے تو پہلے ہی دن آغاز کرلیا ہوتا نا، ریاست کے چیف ایگزیکیوٹو ٹی وی پر آتے ہیں پوری قوم کو خطاب کرتے ہیں، دھمکاتے ہیں ڈراتے ہیں اور پھر پتلی گلی سے چین کو نکل جاتے ہیں، پیچھے حکومتی نمائندے حسب معمول حکومت کی نمائندگی کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، موقف میں تضاد پایا جاتا ہے عوام سوال اٹھاتے ہیں، جواب میں کہا جاتا ہے کہ ہم انتشار نہیں چاہتے اور پرامن طور پر معاملات کا حل چاہتے ہیں تو بھائی کس نے روکا آپ کو پرامن طور پر معاملات کے حل سے؟ پر حکومت و ریاست کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے وہ تو ہمیں کہیں نظر نہیں آیا۔

آپ تو حد ہی کر رہے ہیں، پہلے ہی 100 دن میں یہ تیور ہیں آپ کے تو اگلے پانچ سال کیا حشر ہونے والا ہے، آپ کیسے مسائل حل کریں گے ہمارے، بندہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے حضور!

پی ٹی آئی کو اکثریتی پارلیمانی جماعت بننے کو موقع ملنے کے بعد مجھ سمیت عوام کی اکثریت کے دلوں میں ایک امید جاگی تھی کہ چلیں اچھا ہوا اسٹیٹس کو جماعتوں سے جان چھوٹی اب اگلے پانچ برس بہترین نہ سہی کچھ نہ کچھ تو بہتر گزریں گے پر ابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، جس کی وجہ حکمرانوں کی یوٹرن پالیسی ہے، جسے لوگ حکومت کے آغاز میں تو نظرانداز کر رہے تھے کہ چلو نئی حکومت ہے نئے لوگ ہیں سمجھ جائیں گے پر جناب! اب اگر سچ پوچھیں تو عوام بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کو ووٹ کرنے والے بہت سارے لوگ اس کشمکش میں بھی مبتلا ہوگئے ہیں کہ کہیں انہوں نے غلطی تو نہیں کر ڈالی؟

تبدیلی سرکار کے رکھوالے اگر بھول گئے ہیں تو میں انہیں یاد دلاتا چلوں کہ آپ نے انتخابات سے پہلے دعوے کیے تھے کہ آپ کی حکومت آنے سے اندھیروں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا اور نئی روشنیاں جنم لیں گی تو جناب بتائیں کہاں ہیں آپ کی روشنیاں، یہاں تو دور دور تک اندھیرے نظر آ رہے ہیں۔

تبدیلی کے دعویداروں کا ہی یہ کہنا تھا کہ ان کی حکومت آنے کے بعد مہنگائی کا ترنت خاتمہ ہوگا پر ہم نے کیا دیکھا آپ نے آتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ پاکستان کی اپنی پیداوار سی این جی کا فی کلو 100 روپے تک لے گئے تو پورے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ نے کرایوں میں بھی من مانا اضافہ کردیا اور نقصان کس ہوا؟ جناب! نقصان تو پاکستان کے غریب عوام کا ہوا نہ پر آپ کو کیا آپ نے تو پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں بھی اضافہ کردیا جبکہ اسد عمر صاحب جو کہ وزیر خزانہ ہیں ان کا کیا کہنا ہوتا تھا پچھلی حکومت میں کہ پٹرول 42 روپے فی لیٹر فروخت ہونا چاہیے، تو کیا خیال ہے اب اس موقف کو بھی ڈسکس کرلیں یا رہنے دیں؟

سچ پوچھیں تو میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس تبدیلی کے سبز باغ دکھا کر کپتان اینڈ کمپنی اقتدار تک آن پنہچے ہیں آخر وہ تبدیلی ہے کس بلا کا نام؟ کیا عوام کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار سے زائد مہنگائی کا مزہ چکھانا تبدیلی کا نام ہے؟

کیا سی این جی، پیٹرول، ڈیزل اور دیگر اشیاء کے نرخوں میں اضافہ تبدیلی ہے؟ کیا تمام اہم قومی و ریاستی امور کو غیرسنجیدگی سے ہینڈل کرنا تبدیلی ہے؟ کیا آپ کے بقول، ایک چھوٹا سا طبقہ، کے آگے ہتھیار ڈال دینا تبدیلی کا نام ہے؟

میرے ملک کے حکمرانو! آخر یہ بات کیوں نہیں سمجھتے آپ کہ جن نعروں اور وعدوں کی بنیاد پر آپ 25 جولائی 2018 ء کے انتخابات میں جیت کر آئے ہو آپ کے اب تک کے تمام تر فیصلے ان نعروں اور وعدوں کے خلاف ہیں، حکمرانو آپ نے اعتماد کی بحالی کے لیے ابھی تک کوئی تیر نہیں مارا بلکہ آپ کے اعمال یوٹرن کی وجہ سے عوام کے اعتماد کا گراف دن بدن گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔

میرے خیال میں جو بات عوام سمجھ رہے ہیں حکومت کو بھی اس کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ یہ وہ پالیسیز یا طرز حکومت نہیں جس کا پاکستانیوں کا انتظار تھا، عوام کو تو ہر چیز اب داغدار لگنے لگی حتیٰ کہ تبدیلی پر بھی داغ ہی داغ نظر آنے لگے ہیں لوگوں کو تو اب آئیں بائیں شائیں سے کچھ نہیں ہوگا، 100 دن پورے ہونے کو آئے ہیں پر اچھائی کے کوئی آثار نہیں ایک سمت کا تعین بھی نہیں ہو پایا ہے آپ سے تو عوام کو یہ تبدیلی داغ داغ ہی نظر آئے گی نہ صاف صاف!

فیض احمد فیض صاحب سے انتہائی معذرت کے ساتھ کپتان سرکار کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
یہ داغ داغ تبدیلی، یہ شب گزیدہ سرکار
تھا جس کا انتظار، یہ وہ حکومت نہیں

اے کپتان سرکار برائے مہربانی اب قلیل عرصہ میں لگے بیشمار داغ دھونے کے لیے کسی سمت کا تعین کرو اور فیصلہ کرو تو ڈٹ کے کرو یہ روش ترک کردیں کہ پرتشدد احتجاج کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا پھر کچھ دیر بعد یہ کہا جائے کہ نہیں، نہیں کوئی کارروائی نہیں ہوگی یا ایک وزیر کہتا پھرے آئی ایم ایف سے قرض لیا جائے گا، دوسرا کہے نہیں یہ تو ناممکنات میں سے ہے، جناب ایسے تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں، ایسے حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).