باپ کا نام نہیں چاہیے


میڈیا کے کیمرے کئی بار اس بچی کی آواز بنے، وہ جو زارو قطار روتے ہوئے کہتی ہے کہ اسے اپنے باپ کا نام نہیں چاہیے۔ یہ تطہیر فاطمہ ہے، جس کا باپ اسے بچپن کی ابتدائی دہلیز پر چھوڑ گیا اور جاتے جاتے اپنی شناخت بھی لے گیا۔ باپ کے ہاتھوں پڑنے والے اس ڈاکے کا سب سے زیادہ نقصان تطہیر نے بھگتا۔ اس کے تمام تعلیمی مراحل روتے سسکتے آگے بڑھے، کتنی ہی امیدوں کے جگنوؤں کو وہ پکڑ نہ سکی، کتنے ہی خوابوں کی تعبیر دیکھ نہ سکی، کیوں کہ ملکی قانون کے مطابق ہر قدم پر اس کو باپ کے نام کی شناختی دستاویزات چاہیے تھیں جو اس کے پاس نہ تھیں۔

پاکستان کی اس بہادر بیٹی نے ہمت پکڑی اور عدالت میں اپنے حق کے لیے کھڑی ہوگئی، لیکن حیران کن طور پر اس نے عدالت سے اپنا وہ شرعی اور قانونی حق طلب ہی نہیں کیا جو اس کے باپ پر واجب الادا تھا، بلکہ ایک ایسا اچھوتا اور انوکھا دعویٰ دائر کیا کہ اس کو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تطہیر نے درخواست دی کہ تمام شناختی دستاویزات میں اس کی ولدیت کے خانے سے باپ کا نام ہٹا دیا جائے، اور اسے فاطمہ بنتِ پاکستان لکھا اور پکارا جائے، کیوں کہ اسے ایسے باپ کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے اس نے صرف مشکلات جھیلی ہیں۔

کل پھر سپریم کورٹ میں ملکی تاریخ کے اس انوکھے کیس کی سماعت ہوئی۔ فاطمہ کے کیس میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور یہ معاملہ پاکستان کے فیملی قوانین میں مزید کیا تبدیلیاں لے کر آئے گا، یہ دیکھنا تو ابھی باقی ہے، لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ ہمارے دیس میں اس المیے کا شکار کیا صرف ایک تطہیر فاطمہ ہی ہے؟ یقیناً نہیں۔ معاشرے میں طلاق کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کے باعث پاکستان میں ایسے سیکڑوں بچے موجود ہیں جو باپ کی زندگی میں یتیمی جھیلتے ہیں۔

تیزی سے کروٹیں بدلتے اس سماج میں اب بحث صرف اس بات پر نہیں ہونی چاہیے کہ طلاق کی وجوہات اور عوامل کیا ہیں؟ اس کا اصل قصوروار کون ہے؟ اور یہ کہ نکاح کا بندھن جو کسی سرپھرے بیل کی طرح کھونٹا توڑنے کو بے چین ہے اس کو مزید کس موٹی رسی سے باندھا جائے کہ فریقین علیحدگی کا خیال دل سے نکال دیں، بلکہ ساتھ ساتھ یہ شعور بھی اجاگر کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ اگر ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی طلاق کا جن بوتل سے باہر آہی جائے تو اب اس کے آسیبی اثرات سے بچوں کو کس طرح ممکنہ حد تک بچایا جاسکتا ہے؟

آج میری اس تحریر کا مخاطب وہ عورتیں ہیں جنہیں تین بول اور کئی بچوں کے ساتھ گھر سے باہر کا رستہ دکھا دیا جاتا ہے، وہ والدین ہیں جو طلاق یافتہ بیٹی کے ساتھ اس کے بچوں کے بھی زبردستی ذمہ دار بنا دیے جاتے ہیں، وہ بھائی ہیں جو ایسی بہنوں اور ان کے بچوں کی حفاظت و کفالت کے لیے زندگیاں تیاگ دیتے ہیں۔ محبت کے دریا نچھاور کرنے سے اگرچہ بچوں کی زندگی میں باپ کا خلا تو کسی نہ کسی حد تک پُر ہوجاتا ہے لیکن وہ کام یابی کے نیلگوں آسمان پر کسی تارے کی طرح چمک نہیں پاتے، تعلیمی مراحل کہیں نہ کہیں باپ کی شناختی دستاویزات کے محتاج بن کر منہہ چڑانے کو کھڑے ہوجاتے ہیں۔

تطہیر فاطمہ کہتی ہے کہ میں نے جب اپنے والد سے ”ب فارم“ کے حصول کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا ”پہلے اپنی ماں کے خلاف تھانے میں جاکر درخواست جمع کرواؤ کہ وہ اچھی عورت نہیں، پھر میں اس بارے میں کچھ سوچوں گا۔ “ گویا یہ جان کر بھی کہ اس کاغذ کی عدم دست یابی اس کی بیٹی کے تعلیمی مراحل میں روڑا بن کر اٹکتی رہے گی، وہ سفاکی کی ساری حدیں توڑتا ہوا زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ گیا۔

مجھے یہاں شکوہ ایسے باپوں سے نہیں، کہ بے حسی کا لبادہ اوڑھ کر بے غیرتی کہ قبر میں دفن ہوجانے والوں کا شکوہ صرف خدا ہی سے کیا جاسکتا ہے، مجھے تو شکوہ ریاست سے ہے کہ مفصل عائلی قوانین ہوتے ہوئے بھی عوامی آگہی کے لیے کوئی جامع منصوبہ کیوں شروع نہیں کیا جاتا جو اندھیرے کے مسافر کے لیے روشنی کی کرن بن جائے اور بے خبری کے اتھاہ سمندر میں ڈوبنے سے کتنی ہی معصوم زندگیاں بچ جائیں۔ شکوہ تو بچوں کے سرپرستوں سے بھی ہے کہ وہ بچوں کا مستقبل محفوظ اور یقینی بنانے کے لیے قانونی مشاورت کیوں طلب نہیں کرتے، یقین کیجیے ان معاملات کو قدرت کا لکھا تسلیم کر کے آپ کا چپ سادھ کر بیٹھ جانا بچوں کے لیے کسی فائدے کا نہیں بلکہ الٹا نقصان کا سبب بنتا ہے۔

میں اپنی زندگی کے ایک ایسے ہی بھیانک تجربے کے بعد آگہی کا دیپ جلانا چاہتی ہوں۔ شاید اس سے بہت سے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوجائے جو طلاق کے بعد دو دنیاؤں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ طلاق کے بعد اگر بچے ماں کے حوالے کر دیے گئے ہیں تو گھبرائیے مت۔ پاکستانی قانون کے مطابق ایسی کوئی بھی ماں عدالت سے جا کر سرپرستی کا سرٹیفیکیٹ بہ آسانی حاصل کرسکتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے لیکن اصل میں یہ بچوں کے محفوظ مستقبل کا بنیادی ضامن ہے، وہ اس طرح کہ اس سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر نادرا کے ریکارڈ میں بننے والے ”ب فارم“ میں بچے ماں کے نام پر تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔

یہ چند ماہ کی خواری تو ہے لیکن اسے جھیل لینا زیادہ بہتر ہے، تاکہ آپ کے بچے قدم قدم پر اس اذیت سے نہ گزریں جو چھوڑ جانے والے باپ سے شناخت طلب کرنے اور اس کا سفاک جواب سننے کے بعد ان کو ہونی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے فلاحی ادارے بھی موجود ہیں جو یہ خدمات بالکل مفت انجام دیتے ہیں، اس طرح نہ صرف آپ کا پیسہ اور وقت بلکہ بچوں کا مستقبل بھی تاریکی سے بچ جاتا ہے۔ میں نے بھی چند ماہ کی بھاگ دوڑ کر کے گارجین سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا، جس کی بنیاد پر بچوں کا ”ب فارم“ نادرا نے بنا کسی حجت کے میرے نام پر جاری کردیا۔

اب بچوں کو ان کے اپنے شناختی کارڈ بننے تک باپ نام کی کسی شناختی دستاویز کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک ماں اور سرپرست کی حیثیت سے وہ دن میرے لیے گویا عید کا تھا جب نادرا کے ریکارڈ میں میرے نام سے ایک فیملی ٹری بنا، جس کی شاخیں میرے تینوں بچوں کے ناموں سے پھوٹیں۔ سو دیر کس بات کی؟ بس ذرا سا ارادہ باندھیے اور اپنی ازدواجی ختم ہو جانے کا کوئی بھگتان بچوں کو نہ بھگتائیے، نہ چھوڑ جانے والے کا غم پالیے بلکہ اس کے منہہ پر قانونی جوتا ماریے اور بتائیے کہ زندگی کے کسی موڑ پر اب اس کی شناخت کی بچوں کو ضرورت نہیں۔ اگر طلاق کے بعد ہر ماں بچوں کے محفوظ مستقبل کی خاطر یہ قدم اٹھا لے تو یقین کیجیے کوئی تطہیر فاطمہ جنم نہ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).