اقوال زریں کی دیوار مہربانی


جدید لسانیات کے جد امجد کہلائے جانے والے امریکہ کے نامور فلاسفر، تاریخ دان اور سماجی ناقد نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ”اگرہم ان لوگوں کے آزادی اظہارپریقین نہیں رکھتے جنہیں ہم حقیرجانتے ہیں توسمجھ لیں دراصل ہم اس پریقین ہی نہیں رکھتے“۔

سول حقوق کی تحریک کے سب سے گرانقدر ترجمان مارٹن لودر کنگ کہتے ہیں کہ ”اس دن ہماری زندگی اختتام کی جانب سفر شروع کر دیتی ہے جس دن ہم ان چیزوں پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جن پر بولنا چاہیے“۔

واشنگٹن پوسٹ کے پبلشر اور شراکتی مالک فلپ گراہم کہتے ہیں کہ ”صحافت دراصل تاریخ کا پہلا خام مسودہ ہے“۔

اوپن وزٹ آف لیٹن امیریکا جیسی شہرہ آفاق تصنیف کے مصنف اور لاطینی امریکہ میں ادب کی نامور شخصیت ایڈورڈو گالیانو ”خود کوجگانے اور دنیا کے حقائق سے آشکارکرنے پر صحافت کے شکر گزار ہیں“۔

پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم، پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کی علامت بینظیربھٹو کا قول زریں ہے کہ ”کسی شخص کو تو قید کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے خیالات کو نہیں“۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں صدر کینیڈی کے قتل کی کوریج سے صحافت کی بلندیوں پر جگمگانے والے ڈان راتھر کا ماننا ہے کہ ”ریٹنگ ہمیشہ نہیں رہتی لیکن معیاری صحافت ہمیشہ رہتی ہے“۔

بطور وزیراعظم تاجِ برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں فتح دلانے والے ونسٹن چرچل بیک وقت سیاستدان، عسکری ماہر اور مصنف بھی تھے اور کمال یہ کہ ہر شعبے میں مہارت کی بلندیوں کو چھوتے تھے ان کا خیال ہے کہ ”پبلک اوپینین کچھ نہیں پبلشڈ اوپینین ہی سب کچھ ہے“۔

کلاسیکی یونان کے مشہور فلاسفر اور ایتھنز اکیڈمی جو مغربی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کا اولین ادارہ سمجھا جاتا ہے کے بانی پلاٹو کی رائے میں ”اظہار رائے علم اور جہالت کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے“۔

1880 کی دہائی سے لے کر اپنی وفات حتی کہ اس کے بعد بھی مغرب میں تھیٹر، کلچر اور سیاست پر راج کرنے اور ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والے جارج برناڈ شا کا ماننا ہے کہ ”گمراہ کن علم سے محتاط رہنا چاہیے یہ جہالت سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے“۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے میتھامیٹکس کے پروفیسر، اے بریف ہسٹری آف ٹائم کے مصنف اور نامور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کا قول ہے کہ ”درست جواب ہونا علم ہے جبکہ درست سوال پوچھنے کی صلاحیت ذہانت ہے“۔

جیرالڈو مائیکل ریورا امریکی صحافی اور مصنف ہیں صحافت کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ”صحافت میں جرات مشہور نہیں بناتی بلکہ غیر معروف کرتی ہے“۔

پہلی بار کولڈ وار کا نظریہ دینے والے والٹر لپ مین کہتے ہیں کہ ”صحافت میں سچ بیان کرنے اور ظالم کو شرم دلانے سے بڑھ کر کوئی قانون نہیں ہو سکتا“۔

جرمن نژاد البرٹ آئن سٹائن طبیعات کی موجودہ دو شاخوں میں سے ایک کے موجد ہیں ماس انرجی ایکویشن یعنی بے پناہ توانائی کے حصول کی مساوات ان کی وجہ شہرت بنی جسے جوہری ہتھیاروں کی تخلیق کا نکتہ آغاز کہا جا تا ہے اس شعبے میں گراں قدر خدمات پر انہیں فزکس کا نوبل انعام بھی دیا گیا ان کا ماننا تھا کہ ”قانون تنہا آزادی اظہار کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکتا اس میں ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے آزادی اظہار کے لئے پورے معاشرے میں برداشت کا مادہ ہونا چاہیے“۔

سابق امریکی صدر تھامس جیفرسن کہتے ہیں کہ ”اطلاعات جمہوریت میں کرنسی جیسی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں“۔

تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے اور اس مقصد کے لئے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے پرامن کا نوبل انعام پانے والی ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ”ہمیں اپنی آواز کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب یہ دبا لی جاتی ہے“۔

یہ ان شخصیات کے اقوال ہیں جنہیں دنیا رہبرمانتی ہے اور ان کے نقشِ پا پرچلنے کی کوشش صرف اس لیے کرتی ہے کہ انہوں نے دنیا کو ہم سے مختلف اور بہتراندازمیں دیکھا اور سمجھا۔ صحافت سے متعلق یہ اقوالِ زریں قومی نشریاتی ادارے کے شعبہ خبرمیں چاغی سٹوڈیوز کی دیواروں پر کندہ ہیں۔ اس سٹوڈیو کے اطراف موجود نیوزروم میں بیٹھے لوگ ہمہ وقت ان سے استفادہ کرسکتے ہیں حتیٰ کہ ان کو توشاید یہ زبانی یاد ہوگئے ہوں۔ یہاں آنیوالے وزراء، سیاستدان، افسرشاہی کے حکام، سول سوسائٹی کے نمائندے، رائے عامہ بنانے والی شخصیات سب یہ اقوال ضرور پڑھتے ہیں لیکن ان کو سمجھنے اور عمل کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

صحافت کے موجودہ حالات دیکھیں اور ان اقوال زریں کودیکھیں تو یقین کامل تیسرے درجے یعنی حقُ الیقین میں کارفرما نظرآتا ہے۔ نہ توصحافت سے متعلقہ کسی شخص کا ان کتابی باتوں سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی معاشرے کی قیادت کے دیگر ذمہ داران کا۔ اس معاشرے میں نوشتہ دیوار سب کو دکھائی دیتا ہے لیکن پڑھنا کسی کو نہیں آتا۔
ان باتوں کا پرچار صرف سیمینارز، صحافت کی کسی کتاب، نہ سننے کی خواہش میں اونگھنے کے دوران کسی لیکچر یا پھر ایسی ہی کسی ”دیوار مہربانی“ پرہی بھلا لگتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).