گریویٹی ڈیمز کیا ہوتے ہیں, چین سے ہم کیا مدد لے سکتے ہیں


گریوہٹی ڈیمز کے بارے پوچھے جانے والے سوالات کے حوالہ سے عرض ہے کہ گریویٹی ڈیم کو نارمل کنکریٹ یا پتھروں کی کنکریٹ سے اس طرح تعمیر کیا جاتا ہے کہ یہ سطحی سمت میں بہنے والے پانی کے دباؤ کو کنکریٹ میٹریل کے وزن سے روک سکے – گریویٹی ڈیم کی ڈیزائننگ میں یہ خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ ڈیم کا ہر سیکشن متوازن اور ایک دوسرے سے آزادانہ رہتا ہے –

گریویٹی ڈیموں کے لئیے سخت پتھروں کی بنیاد کا ہونا بہت ضروری ہے جو بہت زیادہ پریشر کو برداشت کر سکیں جبکہ بعض اوقات ان ڈیمز کی بنیادیں پانی کے ذخیروں کی زمین پر بھی بنائی جاتی ییں – دباؤ برداشت کرنے کی طاقت ہی دراصل وہ درکار پوزیشن فراہم کرتی ہیں جس سے ڈیم کی جامع متوازنیت قائم رہ سکے –

اس کے علاوہ گریویٹی ڈیم کی سخت فطرت ہی بنیادوں کی بعد از تعمیر ہونے والی سیٹلمنٹ (settlement) کو برداشت کر پاتی ہے وگرنہ ڈیم کے سٹرکچر میں کریکوں کا ظہور میں آنا حتمی ہوتا ہے –

گریویٹی ڈیمز کسی حد تک نارمل ڈیموں سے بہتر ہوتے ہیں – ان کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ یہ پانی کے بہاؤ کے ڈیم کی سطح سے تھوڑے بہت اضافہ کو تو برداشت کر ہی سکتے ہیں کیونکہ کنکریٹ پانی کی رگڑ کو بہتر مزاحمت پیش کرتی ہے – مگر پانی گریویٹی ڈیمز کی سطح سے زیادہ بلند یو جائے (جیسا کہ سیلاب کی صورت میں یا پاکستان میں طالبانی تخریب کاری کی صورت میں) تو ڈیمز کا اسٹرکچر بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں –

گریویٹی ڈیمز کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ان ڈیمز کے بڑے اسٹرکچر کی وجہ سے ان میں یہ خاصیت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ پریشر کو بڑھا دیتے ہیں جس سے اسٹرکچر کی تباہی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے – اگرچہ اس طرح کے اضافی پریشر کو خارج کرنے کے لئیے ڈیمز کی بنیادوں یا دوسری مناسب جگہوں پر ڈرینج لائنیں بچھائی جا سکتی ہیں –

گریویٹی ڈیموں کی تعمیر کے دوران بنیادوں میں سیٹل ہونے والی کنکریٹ انرجی ردعمل (exothermic reaction) پیدا کرتی ہے جس سے بہت حرارت پیدا ہوتی ہے – اس حرارت کی وجہ سے کنکریٹ پھیلتی ہے اور اسے ٹھنڈا ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں –

اھنڈا ہونے کے دوران چونکہ کنکریٹ سخت حالت میں ہوتی ہے لہذا اس میں کریک پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے – یہ ڈیزائنر کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے بچنے کی تدبیر کرے –

بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرح کی گریویٹی ڈیموں کی تعمیر کے لئیے ڈیزائنرز اور ماہرین موجود نہیں ہیں … البتہ (NesPak) میں ایک پی ایچ ڈاکٹر ہیں شاید عابد محمود حیات نامی جو چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کے سگے بھائی ہیں – انہوں نے اس حوالہ سے کچھ کام کیا ہوا ہے –

ماہرین کی عدم دستیابی کی وجہ سے گریویٹی ڈیموں کی تعمیر کے لئیے ہمیں امریکی یا چینی ماہرین کی مدد لینے پڑے گی – امریکی تو انڈیا کی وجہ سے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا مگر چین کی مدد مل سکتی ہے اور ایک سروے کے مطابق اٹک سے میانوالی تک 40 گریویٹی ڈیموں کی تعمیر سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی پے اور دریاؤں میں پانی بھی بہتا رہے گا – ایک اطلاع کے مطابق چین نے چشمہ بیراج کے پاس 2.8 میگاواٹ کا ایک چھوٹا گریویٹی ڈیم بنا کر بھی دیا ہے جس کے لئیے پتھر اور کنکریٹ میسونری (masonry) استعمال کی گئی ہے –

گریویٹی ڈیموں کی تین طرح کی گنجائیش کے لحاظ سے اقسام ہیں:-

1):- چھوٹے ڈیم:- جو 100 فٹ تک کی اونچائی کے ہوتے ہیں –

2):- میڈیم ڈیم:- یہ 100 فٹ سے 300 فٹ تک کی اونچائی کے ہوتے ہیں –

3):- بڑے ڈیم:- یہ 300 فٹ سے اونچے ہوتے ہیں –

اگر دیکھا جائے تو دریائے سندھ پر اٹک سے میانوالی کے درمیان اور خیبر پختونخواہ میں دریائے مانگل اور دریائے سرن میں ایسی درجنوں اونچائیاں موجود ہیں جن پر گریویٹی ڈیموں کی تعمیر کی جا سکتی ہے

مگر — !

یہ یاد رہے کہ جس کنکریٹ کو پاکستانی کمپنیاں 1,300 روپے مکعب فٹ تک میں تعمیر کرتی ہیں اسی کنکریٹ کے لئیے ہمارے دوست چینی ہم سے 3,300 روپے مکعب فٹ کے چارجز لیتے ہیں جبکہ ہمارے صرف مزدور ہی چینی دوستوں کے ساتھ کام کرتے ورنہ تو وہ کیل, میخ تک بھی چین سے ہی ساتھ لاتے ہیں جس کی وجہ سے لوکل انڈسٹری کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).