عورت کو پیر کی جوتی سمجھنے والوں کے نام۔۔


آج بات ہو جائے ایک ایسی مخلوق کی جس کی تذلیل ایک جوتی کا سہارا لے کے بخوبی کی جاتی ہے۔ اکثر سوچتی ہوں کہ تذلیل کسی ڈھنگ کی چیز سے بھی تو کی جاسکتی تھی لیکن پھر خیال آتا ہے کہ بات ایسی مخلوق کی ہے جس کی وجہ شہرت ہر زبانِ عام پہ اس سے منسلک موٹی موٹی گالیاں ہیں۔ ایسے میں جوتی کی اوقات تو بہت حقیر سے معلوم ہوتی ہے۔ خیر بات ہو جائے اس جوتی کی اصطلاح کی جو کہ پیر میں پہننے کے ساتھ ساتھ عورت کی اوقات کے ساتھ بھی پہنائی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے اس مخلوق عورت کے احساسات و جذبات بہت نازک اور انمول ہوتے ہیں اور اِس سے بڑھ کر وہ عزت کی حریص ہوتی ہے۔ محل میں رہنے والی اس ذات کو اگر کوٹھڑی نما گھر میں عزت دے دی جائے تو یہ مخلوق اتنی قدر دان ہے کہ ہر مشکل میں ساتھ نبھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے، لیکن جب اِسے عزت کی گُھٹی ملنا بند ہوجائے تو وہ اِن شاندار محلوں میں بھی خود کو قید کی ہوئی ایک لونڈی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتی۔

یہ بات مخالف جنس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بھائی صاحب آپ سے منسلک عورت کو صرف شاندار گھر، سجنے سنورنے کے لیے بہترین لباس یا پیسہ ہی نہیں چاہیے ہوتا بلکہ اِن سب سے بڑھ کر اور اہم اِس کے لیے آپ کی جانب سے ملنے والا پیار اور عزت ہوتی ہے، جبکہ اُس کو بے بس کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ نواب صاحب اُس کی تذلیل کرتا پھرے۔

بیوی بننا عورت کے لیے بہت عظیم اور اہم رشتوں میں سے ایک رشتہ ہوتا ہے اور ہر عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی جگہ اُس کے شوہر کے دل میں بہت خاص ہو۔ جس عورت کو مرد کی طرف سے پیار کے ساتھ ساتھ توجہ اور عزت بھی مل رہی ہو تو اُس کی ذات میں خود اعتمادی، اپنے فیصلوں پر یقین اور اُس کی ذات میں بے پناہ اطمینان دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جب یہی مرد اِس عورت کی پاؤں میں پڑی جوتی کہہ کر تذلیل کرے اور اپنے ہر عمل سے اِس بات کو ثابت کرنے کے در پر بھی ہو تو ایسی عورتوں کی ذات میں بے پناہ احساس کمتری، خوف اور ہیجان کی سی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔

میں نے بہت سے ایسے پاکستانی مرد دیکھے ہیں جوکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور خاص کر بھری محفل میں اپنی عورت کو ذلیل کرکے رکھ دیتے ہیں اور اُن مردوں کا ایسا برتاؤ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اسلام میں عورت کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت تشبیہ شیشے دی گئی سے دی گئی ہے جس کا شاوونادر ہی ہم نے کہیں سن رکھا ہو۔ یہاں آئینے اور شیشے کے خواص کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچا جائے تو یہ چیز بہت ہی نرمی اور احتیاط سے ہینڈل کر نے والی چیز ہے جس کے ساتھ ذرا سا رف ہونے پہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ یقینی ہو جاتا ہے۔

اسی لیے رسول اللہﷺ آئینے، شیشے سے تشبیہ دے کر صنف نازک کا یہی خواص باور کروایا ہے کہ اِس کے ساتھ بھی احتیاط کا رویہ رکھا جائے۔ حقیقت میں عورت کے احساسات آبگینہ کی مانند نازک ہیں جو ذرا سی ٹھیس پر بکھر جاتے ہیں۔ کانچ سے بنی اشیاء کو نازک ہونے کی وجہ سے بہت احتیاط سے رکھا جاتا کہ کہیں ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ کر کرچی کرچی نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ نبیﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں بھی مردوں کو خاص تاکید کی کہ،
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو

لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ مردوں کا رویہ اسلام اور ہماری خود ساختہ روایات کا ملاپ بن کر رہ گیا ہے۔ اِس مخلوق پر جوتی کا لیبل تو مردانگی کے زعم میں جمادیا جاتا ہے لیکن اُس کے لئے کانچ جیسی تشبہات کو معاشرہ فراموش کردیتا ہے۔ اسلام جس نے آج سے 14 سو سال پہلے عورتوں کے لیے مردوں کے رویے کو جس انداز میں بدلا تھا، وہ بدقسمتی سے آج تک ہمارے معاشرے میں غالب نہ آسکا۔

صنف قوی کی اصل مردانگی اُن کی تربیت اور رویے میں جھلکنی چاہیے جہاں وہ ہمیشہ عورت کی عزت و تکریم کو سب سے مقدم رکھیں اور اپنی اسی تربیت کے پیش نظر ”پیر کی جوتی“ جیسی فرسودہ اور گھٹیا سوچ کو رد کرتے ہوئے تھوڑا تمیزدار مرد بنے کا مظاہرہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).