محترم چیف جسٹس، انصاف کے تقاضے پامال کر رہے ہیں


چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایون فیلڈ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ضمانتیں قبول کرنے کے فیصلہ پر سخت انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملکی اصول قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے کیوں نہ ان ضمانتوں کو منسوخ کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تاسف کا اظہار بھی کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں فیصلہ کرتے ہوئے سزا دینے کا معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجنے کی غلطی کی تھی۔ اس معاملہ پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو خود ہی حکم جاری کرنا چاہئے تھا۔ گو کہ اب نواز شریف کے وکلا کو 12 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی مہلت دی گئی ہے لیکن ابتدائی سماعت میں ہی چیف جسٹس کی طرف سے آبزرویشن کے نام پر جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ، اس سے شریف خاندان کے خلاف چیف جسٹس کے طرز عمل اور اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہنی چاہئے۔ سپریم کورٹ کا بنچ اگر چیف جسٹس کی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو عملی طور سے مقدمہ کی سماعت سے پہلے ہی عدالت کا مؤقف بیان کرکے چیف جسٹس نے قانون و آئین کی بالادستی اور انصاف کی روایت کا پول کھول دیا ہے۔ اس صورت میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں قانون اور انصاف کی بنیادی اصولوں کی پاسداری پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ملک کی سپریم کورٹ نے جوڈیشل ایکٹو ازم کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ متعدد اطراف سے اس بارے میں خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم جب تک کوئی عدالت یا اس کا سربراہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرے اور ملکی آئین کا احترام کرتا دکھائی دے، اس وقت تک عدالت یا جج کی طرف سے کسی بھی حکم کے بارے میں صرف قانون دان ہی رائے دے سکتے ہیں تاکہ قانونی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مستقبل کے لئے راہ متعین ہو سکے۔ لیکن جب چیف جسٹس خود اپنے اور سپریم کورٹ کے اختیار کو ملکی نظام سے بالا تر سمجھتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالی معاملات میں مداخلت کرنے کا آغاز کریں اور اس ’مقدس جنگ‘ میں پارلیمنٹ یا حکومت، کسی کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہ ہوں تو یہ قانونی سے زیادہ سیاسی معاملہ بن جاتا ہے جس پر رائے دینے اور احتجاج کرنے کا حق ہر شہری کو حاصل ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران اسی قسم کی صورت حال پیدا کی ہے۔ ایک خاندان اور ایک پارٹی کی سیاست کو محدود کرنے کے جس مشن کی تکمیل کے لئے ثاقب نثار اپنے موجودہ اختیار کو استعمال کرنے پر اصرار کرتے ہیں، وہ ملک میں آئین اور قانون پر رہے سہے اعتبار کو بھی ختم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

یوں تو پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے متعدد سربراہوں نے ماضی کے کئی ادوار میں انصاف فراہم کرنے والے اس ادارے کی شہرت کو داغدار کیا ہے۔ ان میں سر فہرست ملک کے منتخب اور مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا دینے کا المناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو ملک کی قومی اسمبلی انصاف کا قتل قرار دے چکی ہے اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں اس فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا تاکہ ماضی میں ایک آمر کے جبر کی وجہ سے عدالت انصاف کا جو خون کرنے پر مجبور ہوئی تھی اس کی اصلاح کا اہتمام کیا جاسکے۔ اس ریفرنس کو دائر ہونے کے سات برس بعد بھی سپریم کورٹ کو نظر ثانی کے اس معاملہ پر غور کرنے کی فرصت نہیں ملی ۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے عدالت عظمی کے ججوں کے اعلی عہدوں پر فائز ہونے والے منصف ابھی ماضی میں اس فورم سے ہونے والی ناانصافی کو تسلیم کرنے اور بعد از وقت ہی سہی، اپنے ماتھے سے کلنک صاف کرنے کا اہتمام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ایک نام نہاد قتل کی منصوبہ بندی پر پھانسی کی سزا دینا پاکستان کی سپریم کورٹ کا واحد ظلم نہیں۔ یہ سلسلہ 1955 میں مولوی تمیزالدین کیس سے شروع ہؤا تھا جو 1999 کی فوجی بغاوت کو جائز قرار دینے کے محیر العقول حکم تک جاری رہا ۔ چیف جسٹس (ر) ارشاد احمد خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے مئی 2000 کو دئیے گئے ایک فیصلہ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو جائز قرار دینے کے علاوہ ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے فوجی جنرل کو ملکی آئین میں تبدیلی و ترمیم کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا تھا۔ اس ملک کو قانونی بنیاد فراہم کرنے والی دستاویز کو مسترد کرتے ہوئے اس میں من پسند ترامیم کرنے کااختیار ہتھیانے کا کام نام نہاد نظریہ ضرورت کے نام سے شروع کیا گیا تھا جس کی بنیاد 1955 میں فیڈرل کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر نے رکھی تھی۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں گورنرجنرل غلام محمد کی طرف سے آئین ساز اسمبلی توڑنے کے حکم کو غلط کہا گیا تھا۔ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں اس وقت کی فیڈرل کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو معروضی حالات اور ضرورتوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور قانون کے برعکس عدالتی اقدام کو مجبوری قرار دے کر اس اصول کو طویل عرصہ کے لئے ملک میں عدالتی نظام کا حصہ بنا دیا۔

گو کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد دوبارہ چیف جسٹس بننے والے اور خود مختار عدلیہ کی بنیاد رکھنے کا دعوی کرنے والے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بار بار یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا تھا کہ نظریہ ضرورت کو اب دفن کردیا گیا ہے لیکن اس دعویٰ اور موجودہ چیف جسٹس سمیت عدالت عظمی کے دیگر سربراہان کی طرف سے آئین کی بالادستی کا اعلان سامنے آنے کے باوجود ملک کا اعلی ترین ادارہ انصاف ابھی تک آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی سپریم کورٹ آئین کی تشریح کے استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے خود کو آئین سے بالاتر سمجھنے لگی ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ کا قانون سازی کے علاوہ آئینی ترامیم کا اختیار بھی متاثر ہؤا ہے۔

اس حوالے سے سب سے اہم دلیل تو یہی ہوگی کہ جو ادارہ اس اہم فورم سے ماضی میں کی جانے والی ناانصافی اور آئین دشمن کارروائیوں کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہ کرسکا ہو، اس سے مستقبل میں بھی آئین کی حرمت و بالادستی کی حفاظت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس کے عہدے پر دوبارہ متمکن ہونے والے افتخار چوہدری کے پاس اس حوالے سے نادر موقع تھا لیکن انہوں نے بھی عوام کی زبردست تائید سے ملنے والی بے پناہ قوت کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ایجنڈے کی تکمیل اور اپنی انا ، حرص و ہوس کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا کافی سمجھا۔ حالانکہ افتخار چوہدری کے پاس ملک کی غیر منتخب اور منہ زور اسٹبلشمنٹ کا زور توڑ کر آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کا بیش قیمت موقع موجود تھا۔ افتخار چوہدری کو عدالتی معاملات میں ایک فوجی حکومت کی مداخلت کے خلاف آواز بلند کرنے پر ایسی عوامی مقولیت نصیب ہوئی تھی جس کا کوئی سیاست دان محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ افتخار چوہدری کو سپریم کورٹ کا وقار بحال کرنے کا موقع ملا تو بدنصیبی سے انہوں نے عوامی خواہشات کا احترام کرنے کی بجائے اس مقبولیت اور عوامی تائید کو فوجی اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے گروی رکھ دیا۔ اور میمو گیٹ کیس جیسے معاملہ میں سیاسی منتخب حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرکے ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیا۔

میمو گیٹ سے ملک کی ان دیکھی سربرآوردہ قوت نے جو نیا حوصلہ حاصل کیا اس کے مظاہر گزشتہ آٹھ برس کے دوران بار بار دیکھنے میں آئے ہیں۔ سپریم کورٹ جمہوری حکومتوں اور ملک کے آئینی انتظام کو پیش آنے والے اندیشوں سے بچانے کا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔ بلکہ اس ادارے سے منتخب حکومتوں کے خلاف بحران پیدا کرنے اور وزرائے اعظم کو معزول کرنے کا کام لیا گیا ہے۔ جس طرح ڈیم بنوانا یا شہروں سے کوڑا کرکٹ صاف کروانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، اسی طرح عوام کے منتخب نمائیندوں کی دیانت کا پیمانہ بھی سپریم کورٹ کی مقرر کردہ آئینی موشگافیاں نہیں ہو سکتیں بلکہ اس کا فیصلہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کئی دہائیوں تک عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی تائید کرنے کے بعد اب خود اپنے فیصلوں سے اس اختیار کو سلب کرنے کے منصوبہ کا آغاز کیا ہے۔ وزیروں اور سیاست دانوں کی بیان بازی پر توہین عدالت کے نوٹس لے کر سخت سست باتیں اور شقات 62 (1)ایف اور 184(3) کے متنازع استعمال کے ذریعے یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ یہ پیغام عام کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ملک کے عوام ووٹ کا حق استعمال کرنے کا شعور نہیں رکھتے۔ اس لئے اب عدالت عظمی کو ایسے عناصر کو سیاست سے باہر کرنے کا مقصد پورا کرنا ہے جو کسی نہ کسی طرح منتخب ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یادش بخیر یہ وہی مقصد ہے جو ملک کے چار فوجی حکمرانوں نے آئین کو پامال کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور سپریم کورٹ ان کے معاون کا کردار ادا کرتی رہی تھی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار پاناما کیس جے آئی ٹی میں فوجی ایجنسیوں کے ارکان کی شمولیت کو ’تڑکا‘ لگانے کا عمل کہہ چکے ہیں۔ تاہم ابھی یہ وضاحت ان پر ادھار ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ یہ تڑکا کس مجبوری کی بنا پر لگانے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اسی طرح اب نواز شریف کی ضمانت کے معاملہ میں وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے فیصلہ پر جو دھؤاں دار تبصرے کررہے ہیں، وہ ان کی ذاتی رائے کا شاخسانہ ہے یا کوئی مجبوری ان کی زبان سے اظہار کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت تماشہ، اظہار رائے مسدود اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں نظام معطل ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کو دہائیوں پرانے معاملہ میں چند افراد کو بدستور جیل میں رکھنے کی فکر تو لاحق ہے لیکن وہ جمہوریت اور نظام کو لاحق خطروں سے نمٹنے میں کردار ادا کرنے کا حوصلہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔

 آئین کی بالادستی کے نام پر آئین سے کھلواڑ نوشتہ دیوار ہے۔ چیف جسٹس اس صورت میں کیوں کر خود کو آئین کا پاسبان قرار دے سکتے ہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali