ریاست ایک معاہدہ کیلے بیچنے والے بچے کے ساتھ بھی کرے


نئے پاکستان کے معماروں سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے اتنی آسانی سے گھٹنے ٹیک دیں گے۔تین روز تک ریاست کی رٹ سولہ سنگھار کئے شاہراہ دستور پر جھانجریں چھنکاتی رہی ۔ مذہب کے نام پر” فساد فی سبیل اللہ” کے علمبردار مرصع و مسجع دین فروشوں نے ریاست کر یرغمال بنائے رکھا اور تبدیلی فیم حکومتی وزراء اپنے کھوکھلے پن کے ساتھ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے۔ جب خطرہ ٹل گیا تو ان ارباب بست وکشاد کو کھوئی ہوئی گویائی دوبارہ مل گئی اور انہوں نے روایتی طور پر گیدڑ بھبکیاں شروع کر دیں۔ جب ہمت اور ثابت قدمی دکھانی مقصود تھیں اس وقت یہ دونوں عوامل ناپید تھے، ماوزے تنگ نے سچ ہی کہا تھا کہ جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مارنا چاہیئے۔ غضب خدا کا گنتی کے چھوٹے چھوٹے گروہ ڈنڈے اور تلواریں لے کر شاہراؤں کو بند کئے کھڑے رہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے،۔مٹھی بھر لوگوں کے خوف سے موٹروے تک بند کر دی گئی۔ تین دن تک بچے سکول نہیں جا سکے۔ کاروبار زیست معطل رہا لیکن مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی ریاست جگالی کرتی رہی۔ جب مذہب کے یہ ٹھیکیدار اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور پاکستان آرمی کے جنرلز کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے اور ریاستی اداروں کا ٹھٹھہ مخول کر رہے تھے اس وقت ہمارے سیاسی بزرجمہر ایسے عناصر کو ماں جیسی ریاست کے”داماد” کا درجہ دے کر ان کے ساتھ معاہدہ کر رہے تھے۔ایسے الفاظ اگر اس دھرتی کے ”ذلتوں کے مارے لوگ” کہتے تولاریب کہ ان کی نسلیں ہی بے نشان ہو جاتیں۔ان کی ساری زندگی جیل کی تاریک راتوں میں سڑ سڑ کے گزرتی۔

کیا پاکستان بطور ریاست اتنا کمزور ہے کہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا ایک پھپھسی بندوق ہاتھ میں لے کر ریاستی نظام کومفلوج کر سکتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے آسیہ بی بی کیس کے فیصلے پر جب ان صاحبان فتنہ و فساد کے ردعمل اور ان کے سنگین عزائم کا اندازہ تھا تو حکومت نے ان سے نمٹنے کی حکمت عملی کیوں تشکیل نہیں دی؟ نئے پاکستان کے مدار المہام وزیر اعظم جناب عمران خان تو قوم سے خطاب کی صورت گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر چَین سے چِین سدھار گئے، فساد میں لتھڑے تین دنوں میں نہ حکومت نظر آئی اورنہ ہی قیادت۔ انتظامیہ منظر سے مکمل طور پر ہٹ چکی تھی۔ مٹھی بھر افراد ڈنڈے اورتلواریں سونت کر گاڑیوں اور سرکاری و ریاستی املاک کو تباہ وبرباد کرتے رہے۔ سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر ریاست کو للکارتے رہے۔ لیکن کوئی بھی ان کا کچھ نہیں اکھاڑ سکا۔ حکومتی کارپردازان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہماری ”حکمت عملی” سے بہت بڑا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اگر ہم آپریشن کرتے تو وسیع پیمانے پر خون خرابے کا خدشہ تھا۔ اب اگر بیس تیس ڈنڈابردار سڑک چھاپ سڑکوں پر رکاوٹ ڈالیں اور ہماری شیرجوان پولیس کا ایک تگڑا اے ایس آئی پانچ سپاہیوں کی معیت میں جا کر مذکورہ سڑک پر رکاوٹیں ختم کر کے قانون کی عملدراری قائم کرے تو اس سے کون سے ہلاکوخان کے بغداد کا منظر نامہ پیش آ جانا تھا؟
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آج کی برطانوی فوج سے بھی زیادہ افرادی قوت رکھنے والی پنجاب پولیس جو لاچاروں پر ظلم کرنے اورماورائے قانون پولیس مقابلوں میں بندے پھڑکانے کی پیشہ وارانہ صلاحیت کے علاوہ اور کسی بھی بڑے امتحان کے لئے ہمت ہار چکی ہے۔پرانے پاکستان میں ماڈل ٹاؤن سانحہ سے فیض آباد دھرنے تک اورنئے پاکستان میں پاک پتن والے شہرہ آفاق واقعے، ایک ماہ میں یکے بعد دیگرے آئی جی کی تعیناتی اور مبینہ طور پر آر پی او بہاول پور سہیل حبیب تاجک کی سیاسی بنیادوں پر ”تبدیلی” سے کوئی افسر رسک لینے کے لئے تیار نہیں۔ اوپر سے فیصلہ سازی سے عاری سیاسی قیادت نے اپنی کمزوریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سارا بوجھ سپریم کورٹ پر ڈال دیا ہے۔آسیہ بی بی کیس کی نظرثانی اپیل سنے تو سپریم کورٹ۔ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالے تو سپریم کورٹ۔ گویا حکومت ایسے عناصر کے آگے گھٹنے ٹیکتی رہے اور بہادری کے سارے کام معزز ججز سرانجام دیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے قانون اور آئین کے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ تحریر کیا ہے جو مدتوں یاد رکھا جائے گا،اگر ریاست کومٹھی بھر مذہبی انتہا پسندوں سے بچانا ہے تو ہر امن پسند پاکستانی کو سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، لیکن ساتھ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ریاست رات کے اندھیروں میں کسی لایعنی قرارداد پر دستخط کر دے بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونے کا مطلب ہے کہ قانون شکنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونے کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس کے تاریخی فیصلے پر من وعن عمل کرتے ہوئے آسیہ بی بی کوباعزت رہا کیا جائے۔ قانونی ماہرین کے مطابق بھی تحریک لبیک اور حکومت کے مابین ہونے والے معاہدے کی قانونی حیثیت کوئی نہیں۔ کیونکہ ریاست یا سرکار نجی سطح پر لوگوں کے نقصان کی بابت کوئی معاہدہ ازخود نہیں کر سکتی۔ دریں اثنا جب کوئی ملزم بری ہو جاتا ہے تو وہ Double Presumption Of Truth حاصل کر لیتا ہے اور اس کا نام کسی بھی صورت ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
مذکورہ بالا ٹھوس عوامل کے باوجود اگر ہماری سرکارصاحبان فتنہ و فساد سے ان کی شرپسندی کے باوصف معاہدہ کر سکتی ہے تو شیخوپورہ کے اس بچے سے معاہدہ کون کرے گاجس کی کیلے سے لدی گدھاگاڑی کو بتی چوک پر دھرنا مظاہرین نے بے دردی سے لوٹ لیا تھا۔ کیا ریاست اندازہ کر پائے گی کہ اس ریڑھی پراس بچے کے کتنے خواب لدے تھے؟ کیا ریاست اس کے ساتھ وہ تمام معاہدے کرے گی جس کی ضمانت آئین پاکستان کے پہلے 28 آرٹیکلز میں دی گئی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).